اب آگے چلیے اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں تقویٰ کے وصف کا جائزہ لیجیے. شاہ ولی اللہؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ خود یہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں کبھی بھی نہ تو زنا کیا اور نہ چوری کی‘‘ یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ صدیق پردورِ جاہلیت کبھی بھی نہیں آتا‘وہ فطرتاً سلیم الطبع اور مکارم اخلاق سے متصف ہوتا ہے. زمانی لحاظ سے چونکہ اجراءِ وحی سے قبل کا دور دورِجاہلیت کہلاتا ہے ‘لہذا حضرت عثمانؓ کے قول میں ان کے اسلام سے قبل کے زمانے کے لیے ’’دورِ جاہلیت‘‘ استعمال ہوا ہے. یہ قول بھی نقل ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر کی طرح حضرت عثمان( رضی اللہ عنہما) نے بھی ایامِ جاہلیت ہی میں‘ جس میں شراب نوشی اور زنا کو معیوب سمجھنے کے بجائے قابل فخر کام سمجھا جاتا تھا‘ شراب کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا‘ اور ان نفوسِ قدسی کے شکم میں کسی وقت اس اُمّ الخبائث کا ایک قطرہ بھی نہیں گیا تھا. پھر یہ کہ ان دونوں بزرگوں نے کبھی کسی بت کے سامنے کسی قسم کے مراسم عبودیت انجام نہیں دیے تھے. یہ نتیجہ تھا اس فطرتِ سلیمہ کا جس کے متعلق نبی اکرم کا ارشاد ہے :

مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْــرَۃِ ‘ فَاَبَوَاہُ یُـھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ (متفق علیہ)
’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے‘ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.‘‘

یعنی ہر انسان فطر ت اسلام پر پیدا ہوتا ہے. یہ تو ماحول اور ماں باپ کے اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ یہ فطرتِ سلیمہ مسخ ہو جاتی ہے اور انسان شرک اور دوسرے ذمائم اور فواحش میں مبتلا ہو جاتا ہے. ورنہ اگر فطرت اپنی صحت و سلامتی پر برقرار رہے تو انسان سے معاصی کا صدور محال ہے. اس لیے کہ فطرت اس ہستی کی بنائی ہوئی ہے جو کہ 
فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اور فاطر انسان ہے. چنانچہ ہر نبی اور ہر صدیق فطرتِ سلیمہ پر برقرار ہوتا ہے.

نبوت و صدیقیت میں مزاج کے اعتبار سے بڑا قرب ہے. یہ دوسری بات ہے کہ کسی کا دست حنائی کسی ایک پھول کو چن لیتا ہے. جیسے ایک باغ میں بے شمار گلاب کھلے ہوتے ہیں ‘لیکن باغبان ان میں سے ایک پھول کا انتخاب کر لیتا ہے. قرآن مجید کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کا یہ انتخاب 
’’اصطفاء‘‘ اور ’’اجتباء‘‘ کہلاتا ہے جس پر انبیاء و رُسل فائز ہوئے ہیں ‘اور اسی کو وہبی کہا جاتا ہے. چنانچہ محمد ٌرسول اللہ مصطفی بھی ہیں اور مجتبیٰ بھی ! بقیہ پھولوں کو اگر صدیقین تصور کیا جائے تو ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جیسے ہی نبی اور رسول کی دعوت ان کے کانوں تک پہنچتی ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے لپک کر اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں: رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ (آل عمران:۱۹۳’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک منادی کو یہ پکارتے ہوئے سنا کہ ایمان لاؤ اپنے ربّ پر‘ تو ہم ایمان لے آئے!‘‘ یہ صدیقین دعوت حق کو قبول کرنے میں ایک لحظہ بھر توقف و تامل نہیں کرتے بلکہ فوراً تصدیق کرتے ہیں. یہ ہے وہ تیسرا وصف جس کے حامل تمام صدیقین ہوتے ہیں اور ان نفوسِ قدسیہ کی فطرت انبیاء کی فطرت سے بہت مشابہہ ہوتی ہے. صدیقیت کے اس وصف کے لیے قرآن حکیم میں فرمایا گیا: وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾ (اللیل).