انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے بدی اور برائی سے جو کراہیت اور حجاب رکھا ہے اسی جذبہ ٔصادق کو دین کی اصطلاح میں حیا کہا جاتا ہے. حیا کا یہ جو ہر ہرانسان کی فطرت میں فاطر کائنات کی طرف سے ودیعت شدہ ہے: فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ (الشمس) چنانچہ برا کام کرنے پر انسان کا نفس لوامہ اسے ٹوکتا ہے‘ جس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ القیامہ کے آغاز میں قسم کھائی ہے : وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ اسی کو ہم ضمیر کی خلش سے تعبیر کرتے ہیں نبی اکرم نے ایک مرتبہ گناہ کی تعریف یوں فرمائی : اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ (مسلم والترمذی) ’’ گناہ وہ ہے جس سے تمہارے سینے میں خلجان پیدا ہو جائے اور تم اس کو ناپسند کرو کہ تمہارا وہ عمل لوگوں کے علم میں آ جائے اور لوگ اس پر مطلع ہو جائیں‘‘.پس گناہ کے دو پہلو ہو گئے: پہلا یہ کہ اندر سے نفس لوامہ ملامت کرے‘ سینہ بھنچے. دوسرا یہ کہ انسان اس کو ناپسند کرے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اس نے کیسی غلط حرکت کی ہے. اسی احساس کا دوسرا نام حیا ہے اور حیا کے بارے میں نبی اکرم کا ارشاد ہے : اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ (متفق علیہ) ’’حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘. اور ایک حدیث میں تو حیا کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے.

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم کی سند موجود ہے کہ 
اَشَدُّھُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ اور اَکْثَرُھُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ جو اکثر خطیب حضرات جمعہ کے خطبوں میں بیان کرتے ہیں. یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں حیا کے باب میں حضرت عثمان غنی ؓ سب سے بڑھے ہوئے ہیں. اور یہ متفق علیہ حدیث ہم نے ابھی پڑھی ہے کہ : اَلْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ لہذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے : ’’کَامِلُ الْحَیَاءِ وَالْاِیْمَانِ‘‘ تو وہ صد فیصد درست ہے‘ کیونکہ جو حیا میں کامل ہو گا وہ ایمان میں بھی کامل ہو گا.

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا کے بارے میں مسلم شریف میں ایک واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی زبانی بیان ہوا ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور میرے حجرے میں تشریف فرما تھے اور آپؐ ایک گدیلے پر بے تکلفی سے استراحت فرما رہے تھے [اپنے ذاتی حجرے میں جبکہ صرف اہلیہ موجود ہوں بے تکلفی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے‘ ہو سکتا ہے کہ حضور کی ساقِ مبارک کھلی ہوئی ہو اور پورا جسم ڈھکا ہوا نہ ہو. یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے حجرے کو ہمارے اپنے گھروں کے کمروں پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہو گا. اُمہات المؤمنین کے حجروں کے طول و عرض کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکا حجرہ اتنا چھوٹا تھا کہ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنی ٹانگیں پھیلائے رکھیں اور حضور نمازِ تہجد میں بآسانی سجدہ فرما لیں. چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ اُمّ المؤمنین کی ٹانگیں اکثر مصلیٰ پر سجدے کی جگہ آ جاتی تھیں اور حضور سجدے میں جاتے وقت یا تو اُمّ المؤمنین کے پیروں کو ٹھونکا دیتے یا پھر ایک طرف ہٹا دیتے اسی چھوٹے سے حجرے میں نبی اکرم استراحت فرما رہے ہیں‘ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابھی موجود ہیں.]

وہ روایت کرتی ہیں‘ اطلاع ملی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لا ئے ہیں اور اذن باریابی کے خواہاں ہیں. حضور کی اجازت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حجرے میں تشریف لائے اور حضورؐ جس حال میں استراحت فرما رہے تھے اسی طرح لیٹے رہے. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو بات کرنی تھی کی اور واپس تشریف لے گئے. تھوڑی دیر کے بعد اطلاع ملی کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے ہیں اور اِذن باریابی کے طالب ہیں. ان کو بھی اندر آنے کی اجازت مل گئی‘ وہ آئے اور حضور اسی طرح لیٹے رہے (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اوپر چادر ڈال کر ایک طرف پیٹھ پھیر لی). وہ 
بھی اپنی بات کر کے رخصت ہو گئے تیسری مرتبہ اطلاع دی گئی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں. اس اطلاع کے بعد حضور بستر پر اُٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست فر مالیے (تہبند سے ساق مبارک ڈھانک لی) اور ساتھ ہی مجھے (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکو) حکم دیا کہ اپنے کپڑے خوب اچھی طرح اپنے جسم پر لپیٹ لو (اور پورا جسم ڈھانپ کر دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاؤ. یہ اہتمام کرنے کے بعد) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اِذن باریابی ملا. وہ بھی حجرۂ مبارک میں حاضر ہوئے اور جو بات کرنی تھی کر کے رخصت ہوئے.

(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد) میں نے حضور سے دریافت کیا کہ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے آنے پر تو آپؐنے کوئی خاص اہتمام نہیں فرمایا. یہ کیا خاص بات تھی کہ عثمان غنی ؓ کے آنے پر آپؐ نے خود بھی کپڑوں کی درستگی کا خاص اہتمام فرمایا اور مجھے بھی ہدایت فرمائی کہ میں خوب اچھی طرح کپڑے لپیٹ لوں؟ جواب میں حضور نے فرمایا : ’’اے عائشہ! عثمان انتہائی حیادار شخص ہیں. مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں اسی طرح بے تکلفی سے لیٹا رہا تو عثمانؓ اپنی فطری حیا اور حجاب کی وجہ سے وہ بات نہیں کر سکیں گے جس کے لیے وہ آئے تھے اور ویسے ہی واپس چلے جائیں گے‘‘. ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ حضور نے فرمایا:’’عثمانؓ کی شخصیت تو وہ ہے کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں‘ چنانچہ میں نے بھی ان سے حیا کی ہے‘‘. یہ واقعہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مروی ہے:

اَنَّ اَبَابَکْرٍ الصِّدِّیْقَ اسْتَاْذَنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ  وَھُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی فِرَاشِہٖ لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَۃَ ‘ فَاَذِنَ لِاَبِیْ بَکْرٍ وَھُوَ کَذٰلِکَ‘ فَقَضٰی اِلَیْہِ حَاجَتَہٗ ثُمَّ انْصَرَفَ‘ ثُمَّ اسْتَاْذَنَ عُمَرُ فَاَذِنَ لَہٗ وَھُوَ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ‘ فَقَضٰی اِلَیْہِ حَاجَتَہٗ ثُمَّ انْصَرَفَ‘ قَالَ عُثْمَانُ : ثُمَّ اسْتَاْذَنْتُ عَلَیْہِ فَجَلَسَ وَقَالَ لِعَائِشَۃَ: اِجْمَعِیْ عَلَیْکِ ثِیَابَکِ‘ فَقَضَیْتُ اِلَیْہِ حَاجَتِیْ ثُمَّ انْصَرَفْتُ‘ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ‘ مَالِیْ لَمْ اَرَکَ فَزِعْتَ لِاَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ َ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا کَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : اِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَیِیٌّ وَاِنِّیْ خَشِیْتُ اِنْ اَذِنْتُ لَـہٗ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ اَنْ لاَّ یَبْلُغَ اِلَیَّ فِیْ حَاجَتِہٖ 
یہ ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیا کا معاملہ! پھر حضرت عثمانؓ خود فرماتے ہیں کہ ’’جس روز سے میں نے ایمان قبول کیا ہے اور نبی اکرم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے اس کے بعد سے میں نے نہ کبھی گانا گایا ہے اور نہ گانے کی تمنا کی ہے‘ اور پھر یہ کہ اس بیعت کے بعد اپنے داہنے ہاتھ کو‘ جو بیعت کے لیے حضورؐ کے دست مبارک میں دیا گیا تھا‘ کبھی اپنی شرم گاہ سے مس نہیں کیا‘‘. حضرت عثمانؓ کے الفاظ یہ ہیں: مَا تَغَنَّـیْتُ وَمَا تَمَنَّـیْتُ وَلَا مَسِسْتُ ذَکَرِیْ بِیَمِیْنِیْ مُنْذُ بَایَعْتُ بِھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  ! (رواہ ابن ماجہ)