حضرت عثمانؓ کے تقویٰ کے مزید چند احوال

منقول ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کے زمانے ہی میں پورا قرآن شریف یاد کر لیا تھا اور کبھی کبھی رات کو نوافل میں پورا قرآن مجید پڑھا کرتے تھے. صحیحین میں روایت ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے وضو کا طریقہ بالکل رسول اللہ کے وضو سے مشابہ ہوتا تھا. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے اور زبیر بن عبداللہ نے اپنی دادی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ صائم الدہر اور قائم اللیل تھے. صرف اول شب تھوڑی دیر کے لیے سوتے تھے. امام دار الہجرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ حج اور عمرے میں سب سے بازی لے گئے تھے اور یہ کہ آپ اپنے ہمسروں میں صلہ رحمی میں سب سے بڑھ کر تھے.

مشکوٰۃ میں روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی اشکوں سے تر ہو جاتی. لوگوں نے دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ آپ جنت و دوزخ کے ذکر سے اتنے اشکبار نہیں ہوتے جتنا کہ قبر کے ذکر پر ہوتے ہیں؟ آپؓ نے جواب میں کہا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: 

اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ‘ فَاِنْ نَجَا مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَیْسَرُ مِنْہُ وَاِنْ لَمْ یَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَشَدُّ مِنْہُ (رواہ الترمذی وابن ماجہ) ’’قبر آخرت کی منزلوں میں سے سب سے پہلی منزل ہے. اگر کوئی اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کے مراحل اس کے لیے آسان تر ہوں گے‘ اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو اس کے بعد اس سے بھی زیادہ سختی ہے.‘‘

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے :
مَا رَاَیْتُ مَنْظَرًا قَطُّ اِلاَّ الْقَبْرُ اَفْظَعُ مِنْہُ
’’میں نے قبر سے زیادہ کسی مقام کو ہیبت ناک نہیں دیکھا.‘‘

یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ:

’’اگر میں دوزخ و جنت کے درمیان ہوں اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا‘ میرے لیے ان میں سے کس کا حکم دیا جائے گا ‘ تو میں اس کا حال معلوم کرنے سے قبل راکھ ہوجانے کو پسند کروں گا.‘‘

ان چند واقعات سے اندازہ کر لیجیے کہ جس کے اِعطاء‘ تقویٰ اور حیا کا یہ عالم ہو تو اس کی فضیلت و منقبت کا کیا کہنا! 
رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ وارضاہ.