سورۃ الحدید کی محولہ بالا آیات میں صدقہ کرنے والے اور اللہ کے دین کے لیے قرضِ حسن دینے والے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے لیے جہاں اجر عظیم کی نوید سنائی گئی ہے‘ وہاں ان کو صدیقین و شہداء کے زمرے میں شامل ہونے کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے اور ان کو یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ ان کا اجر اور ان کا نور ان کے ربّ کے پاس محفوظ ہے. چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں صدیقیت کے اوصاف بھی موجود ہیں اور پھر وہ شہادتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے ہیں. گویا ان کی شخصیت میں صدیقیت اور شہادت کے دونوں نور موجود ہیں. اس اعتبار سے بھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت ذوالنورین کے معزز لقب کی صحیح مصداق نظر آتی ہے.

رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ ان کو اللہ کی طرف سے ایک خاص تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وہ مقتول نہیں ہوتے. چونکہ عالم ظاہری میں اس طرح رسولوں کے مغلوب ہونے کا پہلو نکلتا ہے اور مغلوبیت رسول کے شایانِ شان نہیں‘ لہذا اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ : 
لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ ’’لازماً میں اور میرے رسول غالب رہیں گے‘‘ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کو راہِ حق میں شہادت کا بڑا اشتیاق تھا. چنانچہ کتب احادیث میں آنحضور کی یہ دعائیں منقول ہوئی ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَاور اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ . مزید برآں نبی کریم کا یہ قول بھی احادیث میں موجود ہے:

وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنْ اَغْزُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلَ‘ ثُمَّ اَغْزُوَ فَاُقْتَلَ‘ ثُمَّ اَغْزُوَ فَاُقْتَلَ (متفق علیہ)
’’میری یہ آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں اور قتل کر دیا جاؤں‘ (پھر مجھے زندہ کیا جائے اور) میں پھر اللہ کی راہ میں جنگ کروں اور قتل کر دیا جاؤں(پھر مجھے زندہ کیا جائے اور) میں پھر اللہ کی راہ میں جنگ کروں اور قتل کر دیا جاؤں.‘‘

لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ رسولوں کے باب میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ رسول کبھی قتل نہیں ہوتے‘ کیونکہ اس میں ظاہری طور پر رسول کے مغلوب ہونے کا پہلو نکلتا ہے. البتہ انبیائے کرام علیہم السلام قتل بھی ہوئے ہیں‘ جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سانحہ قتل سے ہر مسلمان واقف ہے.صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے باب میں بھی اللہ کی وہی سنت کارفرما نظر آتی ہے جو رسولوں سے متعلق ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو صدیقیت کبریٰ کے مقام پر فائز ہیں طبعی طور پر وفات پاتے ہیں‘ جبکہ مابعد کے تینوں خلفاء راشدین حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی حیدر کرار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین مرتبہ شہادت سے 
سرفراز کیے جاتے ہیں. نبی اکرم ان تینوں خلفاء راشدین کی شہادت کی پیشگی خبر دے چکے تھے. وہ حدیث تو بہت مشہور ہے کہ ایک روز نبی اکرم حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے تو کوہِ اُحد کانپنے اور لرزنے لگا. حضورنے اپنے پائے مبارک سے اُحد کو ٹھونکا دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ا ے اُحد تھم جا‘ رک جا‘ اس وقت تیری پیٹھ پر ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں.‘‘ (متفق علیہ)