جن حضرات نے سورۃ الکہف کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کے دوسرے رکوع میں اصحابِ کہف کا واقعہ بیان ہوا ہے اور سورہ کے آخری رکوع سے ماقبل حضرت ذوالقرنین کی فتوحات کے تذکرے کے ساتھ ہی ان کی سیرت میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے اوصاف کونمایاں کیا گیا ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب ذوالقرنین ایک خداپرست‘ خدا ترس اور نیک بادشاہ تھے. قرآن شہادت دیتا ہے کہ اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا ﴿ۙ۸۴﴾ (الکہف) واقعہ یہ ہے کہ وہ اُس دور کی ایک عظیم ترین سلطنت کے شہنشاہ تھے. اصحابِ کہف کون تھے؟ ازروئے قرآن یہ وہ نوجوان تھے جو ایک مشرکانہ ماحول اور مشرک بادشاہ کے دور میں توحید کے ساتھ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے‘ جس کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا اور وہ نوجوان اپنا ایمان اور اپنی جان بچانے کے لیے ایک پہاڑ کی کھوہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہو گئے تھے.

ان دونوں واقعات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ انتہائی حالات ہیں جن سے اس دنیا میں اہل ایمان کو سابقہ پیش آ سکتا ہے. اصحابِ کہف جیسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ جن میں ایمان اور جان بچانے کے لیے کہیں پناہ گزیں ہونا پڑے اور حضرت ذوالقرنین کی طرح یہ صورت حال بھی پیش آ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اپنے فضل سے سطوت‘ شان و شوکت اور ایک عظیم سلطنت سے نوازے. اب آپ خلافت راشدہ کی تاریخ میں دیکھئے کہ خلفائے راشدین میں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات میں یہ دونوں شانیں اور کیفیات مجتمع نظر آئیں گی. حضرت عثمانؓکی حکومت اور سلطنت ‘وسعت کے اعتبار سے حضرت ذوالقرنین کی سلطنت و حکومت سے سہ چند تھی.

تاریخی لحاظ سے حضرت ذوالقرنین کی سلطنت کی حدود مکران سے لے کر بحیرۂ روم کے ساحل تک تھیں. اس میں دارااوّل کے دور میں مزید وسعت ہوئی‘ لیکن اس سلطنت کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلامی مملکت کی حدود سے کوئی تقابل نہیں ہے. پورا جزیرہ نمائے عرب‘ پھر حضرت ذوالقرنین کی سلطنت کی جو مشرقی سرحد تھی‘ اس سے لے کر تابخاکِ کاشغر کا علاقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں اسلام کے پرچم تلے تھا. اس کے علاوہ پورا شمالی افریقہ مصر سے لے کر مراکش تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زیرنگیں تھا. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں صرف مصر اسلامی مملکت میں شامل ہوا تھا ‘لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدودِسلطنت ماوراء النہر کو پھاند کر بلخ و بخارا اور کاشغر و تاشقندتک وسیع ہو چکی تھیں.

اس کے ساتھ ہی حضرت عثمانؓ اصحابِ کہف جیسی حالت سے بھی دوچار ہوئے اور آپؓ فتنہ کے زمانے میں باغیوں کی دست درازیوں کی وجہ سے چالیس دن رات سے بھی زیادہ عرصہ اپنے گھر میں اس حال میں محصور رہے کہ پینے کے لیے پانی تک موجود نہیں یہ دونوں شانیں کہ حضرت ذوالقرنین سے سہ چند سطوت و سلطنت اور اصحابِ کہف کی طرح محصوری و پناہ گزینی‘ حضرت عثمانؓ کی زندگی میں جو نظر آتی ہیں‘ ان کو بھی ہم ذوالنورین کے لقب کا مصداق قرار دے سکتے ہیں.