(iii) غزوۂ بدر اور حدیبیہ میں آپؓ کا موجود تصور کیا جانا

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی میں دو ایسے مواقع بھی پیش آئے کہ آپ رضی اللہ عنہ ذاتی حیثیت سے موجود نہیں ہیں لیکن رسول اللہ کی طرف سے موجود قرار دیے جاتے ہیں پہلا واقعہ غزوۂ بدر کے موقع پر پیش آیا. اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کافی علیل تھیں. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی اکرم نے غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت عثمانؓ کو اپنی صاحبزادی کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا‘ اور فرمایا تھا کہ آپ کوبدر کی شرکت کا ثواب اور اس کا حصہ ملے گا.

مزیدبرآں صحیح روایات میں مذکور ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے تین سو تیرہ بے سروسامان مسلمانوں کے جتھے کوکفار کے ایک ہزار لشکر کے مسلح لشکر جرار پر فتح عنایت فرمائی تھی‘ جس کے نتیجہ میں ابوجہل سمیت ستر صنادید عرب کافر کھیت رہے تھے اور قریش کا سارا غرور اللہ تعالیٰ نے خاک میں ملا دیا تھا اور جس میں ستر کے قریب کفار مسلمانوں کی قید میں آئے تھے‘ نبی اکرم نے غزوۂ بدر کے غنائم میں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہی حصہ مرحمت فرمایا جو دوسرے بدری صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مرحمت کیا گیا تھا. گویا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس غزوے میں مجازی طو رپر شریک قرار دیا جبکہ حقیقی طور پر وہ شریک نہیں تھے.

دوسرا واقعہ حدیبیہ کے موقع پر پیش آیا. آپ کو معلوم ہے کہ ۶ھ میں نبی اکرم عمرے کی نیت سے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے. اثنائے سفر میں معلوم ہوا کہ قریش مکہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چاہے خون کی ندیاں بہہ جائیں‘ وہ مسلمانوں کو عمرہ نہیں کرنے دیں گے. چنانچہ نبی اکرم نے حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا. ضرورت محسوس ہوئی کہ قریش مکہ کے پاس سفارت بھیجی جائے جو ان کو سمجھا سکے کہ مسلمان لڑائی کی غرض سے نہیں آئے ہیں اور ان کا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا 
ہے‘ نیز ان مسلمانوں کو بھی تسکین دے سکے جو مکہ میں محصوری کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کفار مکہ کے جوروستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں. اس سفارت کے لیے نبی اکرم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا اور ان کو قریش مکہ سے سلسلہ جنبانی کرنے اور ان مسلمانوں کو جو مکہ میں قریش کی قید میں تھے‘ تسلی دینے کے لیے مکہ روانہ فرمایا.

نبی اکرم کا یہ انتخاب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بہت سی فضیلتوں کی دلیل ہے. پہلی یہ کہ حضرت عثمانؓ حضور کے معتمد علیہ اصحاب میں شامل ہیں. دوسری یہ کہ حضرت عثمانؓقریش کے نزدیک بھی معززترین اشخاص میں شمار ہوتے تھے. تیسری یہ کہ جب حضرت عثمانؓ مکہ چلے گئے تو اصحابِ رسولؐ میں سے چند ایک نے یہ کہا کہ عثمانؓ کو خانہ کعبہ کا طواف مبارک ہو. حضور نے یہ بات سنی تو فرمایا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اگر عثمانؓ مکہ میں زمانہ دراز تک رہیں تو بھی وہ اس وقت تک طواف نہیں کریں گے جب تک میں طواف نہ کر لوں‘‘. اللہ !اللہ! کتنا اعتماد تھا حضور کو جناب عثمانؓ پر اور ہوا بھی یہی کہ حضرت عثمانؓ کے چچا زاد بھائی ابان بن سعید بن عاص نے ان کو مکہ میں اپنی پناہ میں لے لیا‘ اور ان کو دعوت دی کہ وہ طواف کر لیں‘ لیکن اس محب رسولؐ نے کہا کہ ’’ـ جب تک نبی اکرم طواف نہیں کر لیں گے میں طواف نہیں کر سکتا‘‘. چوتھی یہ کہ جب یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو مکہ والوں نے شہید کر ڈالا ہے ‘ تو حضور نے حضرت عثمانؓ کے قصاص کے لیے تمام صحابہ کرامؓ سے بیعت لی‘ جن کی تعداد مختلف روایات کے مطابق ۱۴۰۰ سے لے کر ۲۴۰۰تک بیان ہوئی ہے اور جو ’’بیعت رضوان‘‘ کے نام سے مشہور ہے. نیز جس کے متعلق سورۃ الفتح میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸
’’(اے نبی !) بے شک اللہ مؤمنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ‘ ان کے دلوں کا حال اُس کو (یعنی اللہ کو) معلوم تھا. اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو انعام میں فتح قریب بخشی.‘‘

غور کیجیے ‘خونِ عثمانؓ کی حضور کی نگاہ میں اتنی قدر و منزلت اور وقعت تھی کہ حضرت 
عثمانؓ کے خون کا قصاص لینے کے لیے نبی اکرم اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لیتے ہیں یہی وہ دوسرا موقع ہے جس میں حضور نے حضرت عثمانؓ کے حقیقی طور پر موجود نہ ہونے کو بھی مجازی طور پر موجود قرار دیا. چنانچہ ’’بیعت رضوان‘‘ کے موقع پر حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ ’’یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے‘‘ اور بایاں ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ ’’یہ میرا ہاتھ ہے‘‘اور پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ ’’یہ عثمانؓ کی طرف سے (اگر وہ زندہ ہیں) بیعت ہے‘‘. یہ حضرت عثمانؓ کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ وہ موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ’’بیعت رضوان‘‘ میں شامل ہیں. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ’’حضور نے حضرت عثمانؓ کو مکہ اس لیے روانہ کیا تھا کہ مکہ والوں کے نزدیک آپؓ سے زیادہ کوئی صاحب عزت نہ تھا. بیعت رضوان آپؓ کے قتل کی خبر پھیلنے کے بعد ہوئی. 

اللہ! اللہ! خونِ عثمانؓ کے قصاص کے لیے نبی اکرم اپنے تقریباً۲۴۰۰ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بیعت لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس بیعت پر اپنی خوشنودی اور رضامندی کا اظہار فرماتا ہے. اس کے بعدبھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر کوئی شک کرے‘ ان کی تنقیص کرے‘ ان پر اعتراضات و اتہامات وارد کرے اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرے تو اس کوچاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محاسبہ کا جواب بھی سوچ لے.
غزوۂ بدر اور حدیبیہ دونوں مواقع پر اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حقیقی طو رپر موجود نہیں ہیں‘ لیکن حضور ان کو مجازی طور پر موجود قرار دیتے ہیں. اس لحاظ سے بھی ’’ذوالنورین‘‘ کا لقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بالکل راست آتا ہے!