حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت عمر فاروق اور حضرت علی حیدر رضی اللہ عنہماکے ادوارِ خلافت کے رنگ بھی نمایاں نظر آتے ہیں. یہ دونوں اصحابِ رسولؐ نہ صرف عشرۂ مبشرہ میں بلکہ مسلمہ طور پر خلفائے راشدین میں شامل ہیں‘ اور فضیلت کے لحاظ سے پوری اُمت میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوسرے نمبر پر اور حضرت علی حیدر رضی اللہ عنہ چوتھے نمبر پر فائز ہیں.

آپ کو معلوم ہے کہ نبی اکرم نے مختلف مراحل سے گزر کر تیئس سالہ جاں گسل 
جدوجہد اور محنت شاقہ کے بعد اپنی بعثت کے اس امتیازی مقصد کی تکمیل فرما دی‘ جو خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے آپؐ کا فرضِ منصبی تھا‘ اور جو قرآن حکیم میں تین مرتبہ بایں الفاظ بیان ہوا ہے : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ (التوبۃ:۳۳‘الفتح:۲۸‘ الصف:۹’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنا رسول الہدیٰ اور دین حق دے کر تاکہ اسے غالب کر دے کل جنس دین پر‘‘. چنانچہ آنحضور کی حیاتِ طیبہ میں جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین بہ تمام و کمال قائم ہو گیا اوراِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ (یوسف:۴۰ و ۶۷کی شان بالفعل نظر آنے لگی اور وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ (التوبۃ:۴۰کے مصداق اللہ ہی کا کلمہ سب سے بلند و بالا ہو گیا.

ختم المرتبت محمد ٌرسول اللہ کی وفات کے بعد‘جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ عرب میں اسلامی انقلاب کے خلاف ایک شدید ردّعمل پیدا ہوا. چنانچہ بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہو گئے‘ چند قبائل مرتد ہو گئے‘ بعض مضبوط قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا. صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان تمام فتنوں کو فرو کیا. دراصل صدیق کا مقام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ رسول کے کام کو مستحکم کرتا ہے‘ معاندین کی قوت کو کچلتا ہے اور ہرردعمل کو ختم کرتا ہے. چنانچہ صدیق اکبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ڈھائی سالہ دورِ خلافت اسی شان کا مظہر نظر آتا ہے. اس کام کی تکمیل کے بعد وہ بھی رخصت ہو گئے. 

اس کے بعد دورِ فاروقی شروع ہوتا ہے‘جس کو ایک جملہ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ باغ اپنی پوری بہار پر آ گیا حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ دورِ فاروقی میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے. اس دور میں داخلی استحکام کے ساتھ فتوحات کا طویل سلسلہ شروع ہوا. اسلامی سلطنت میں اصل توسیع دورِ فاروقی میں ہوئی ہے. سلطنت کسریٰ کا نام و نشان اسی دور میں صفحۂ ہستی سے محو ہوا اور وہ ایک داستان پارینہ بن کر رہ گئی. سلطنت روما کی بھی ایک ٹانگ اسی دور میں ٹوٹ چکی تھی. قیصر روم کا تین براعظموں مغربی ایشیا‘ یورپ اور شمالی افریقہ کے اکثر حصہ پر تسلط تھا‘ اس میں سے مغربی ایشیا کی حد تک روما کی سلطنت کا اسی دور میں خاتمہ ہوا اور پھر دورِ عثمانی میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں ماوراء النہر تک پھیل گئیں. ذرا تصور کیجیے کہ اِس وقت کا لیبیا‘ تیونس‘ الجزائر اور 
مراکش حضرت عثمانؓ کے دور میں اسلام کے پرچم تلے آ چکا تھا.

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ شاید یہ فتنہ اور فساد ہی کا دور تھا یہ بہت بڑا مغالطہ‘ بلکہ صریح بہتان و افترا ہے.خلفائے اربعہ میں سے سب سے زیادہ طویل دورِ خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور تقریباً ڈھائی سال رہا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور تقریباً دس سال رہا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور تقریباًپونے پانچ سال اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور تقریباً بارہ سال رہا. خلافت ِ عثمانیہ کے اس بارہ سالہ طویل دور میں فاروقی اور علوی دورِ خلافت کے دونوں رنگ موجود ہیں. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے پہلے آٹھ سال میں امن و امان اور دبدبہ کا وہی رنگ رہا ہے جو دورِ فاروقی میں نظر آتا ہے. ان آٹھ سالوں میں عدل و انصاف اور داخلی استحکام کی وہی کیفیت ہے جو دورِ فاروقی کا طرئہ امتیاز رہی ہے. ساتھ ہی ساتھ مجاہدین اسلام کے قدم آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتاچلا گیا ہے.

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد دشمنانِ اسلام نے یہ سمجھا تھا کہ شاید اسلامی حکومت قائم نہ رہ سکے گی. چنانچہ حضرت عمرؓ کی شہادت کے فوراً بعد بعض مفتوحہ‘ خاص طورپر ایران کے اکثر علاقوں میں شورشیں اور بغاوتیں شروع ہو ئیں‘ لیکن حضرت عثمان غنی ؓ نے ان میں سے ایک ایک کو فرو کر دیا اور حالات پر پوری طرح قابو پا لیا. پھر اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبے کے لیے نئے نئے اقدامات کیے. بحر اوقیانوس کے ساحل تک شمالی افریقہ فتح ہو گیا. یہ جنگ‘ جنگ عبادلہ کہلاتی ہے. حضرت عبداللہ ؓ بن سعد بن ابی شرح اس مہم کے کمانڈر انچیف تھے اور اس میں حضرت عبداللہ بن عباس‘ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیررضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی شریک تھے. اسی جنگ کے نتیجے میں 
پورے شمالی افریقہ کی قسمت بدل گئی اور سلطنت ِروما کا جھنڈا وہاں سرنگوں ہو گیا اور دین مبین کا پرچم لہرانے لگا.

عثمانی خلافت کے آخری چار سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے مماثل نظر آتے ہیں. خلافت ِعثمانی میں یہودیوں اور عجمیوں کی سازشوں نے سراٹھانا شروع کیا اور اس فتنے کے نتیجے ہی میں شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کا سانحہ ٔفاجعہ ظہور پذیر ہوا اور یہ فتنہ حضر ت علی حیدر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اپنے عروج پر پہنچا. علوی خلافت کے تقریباً پونے پانچ سال اسی فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی نذر ہوئے اور اسی دور میں جنگ جمل اور جنگ صفین ظہورپذیر ہوئیں اور بالآخر اسی فتنہ نے چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کی شمع حیات گل کر دی. یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں غلبۂ دین کی سمت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا‘ نہ اسلامی سلطنت کی سرحدیں آگے پھیلیں بہرحال یہاں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ عثمانی دورِ خلافت میں دورِ فاروقی اور دورِ علوی دونوں کی کیفیات جمع ہیں.پہلے آٹھ سال دورِ فاروقی کا کامل عکس نظر آتے ہیں جبکہ آخری چار سال وہ ہیں جن میں دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں نے سر اٹھانا شروع کیا تھا‘ جس کے نتیجے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہانتہائی مظلومی کی حالت میں شہید کیے گئے اور یہ فتنہ دورِ خلافت علوی میں ایک ہولناک فتنے کی شکل میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا. چنانچہ مسلمان آپس ہی میں دست و گریبان ہو گئے اور چوراسی ہزار کلمہ گو ایک دوسرے کے ہاتھوں تہ تیغ ہو ئے. کفار کے ساتھ اس دور میں جنگ و قتال کا کوئی معرکہ پیش نہیں آیا. اس فتنہ اور سازش کے اسباب کچھ اختصار کے ساتھ آگے بیان ہوں گے‘ یہاں صرف اتنا سمجھ لیجیے کہ ایسے فتنوں کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں جو نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور کچھ مخفی اور باطنی اسباب ہوتے ہیں جو نظر تو نہیں آتے لیکن فیصلہ کن کردار یہی مخفی و باطنی اسباب ادا کرتے ہیں.

اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ علوی دورِ خلافت میں جو بدامنی‘ خانہ جنگی اورمسلمانوں کے مابین خونریزی ہوئی تو حاشا وکلا اس کا کوئی الزام ہم امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی پر نہیں لگاتے.یہ جسارت ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ پوری اُمت مسلمہ کے نزدیک حضرت علیؓ چوتھے خلیفہ ٔراشد ہیں. وہ فضیلت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں چوتھے نمبر پر ہیں. گویا ہم ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے بعد سب سے زیادہ افضل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں.اس فتنہ وفساد میں ان کی کوئی کمزوری شامل نہیں تھی‘ وہ برحق خلیفہ ٔراشد تھے. صورتحال یہ تھی کہ سازش کی آگ اس طرح بھڑکادی گئی تھی کہ نہ حضرت عثمانؓ اس کو فرو کر سکے اور نہ ہی 
حضرت علیؓ . اگر حضرت علیؓ فتنہ وفساد فرو نہ کر سکے تو اس کا ذرہ بھر الزام بھی آپؓ کی ذات گرامی پر نہیں آتا. بالکل یہی بات حضرت عثمانؓ پر بھی راست آتی ہے.

اگر وہ فتنہ کو فرو نہ کر سکے تو کتنا بڑا ظلم ہے کہ سارا الزام آپؓ پر رکھ دیا جائے. کیسا تضاد ہے کہ ایک خلیفہ کے زمانے میں پورا دورِ خلافت فتنہ و فساد کی نذر ہو گیا اور وہ فتنہ اتنا شدید تھا کہ وہ حالات پر قابو نہ پا سکے اور فتنہ کو فرو نہ کر سکے تب بھی وہ سب کی نگاہ میں شیر خدا ہیں اور کسی دوسرے کے دور میں جبکہ ان کا دو تہائی دور‘ دورِ فاروقی کے مثل ہو اور صرف ایک تہائی دور میں فتنہ و فساد سراٹھائے تو ان کے بارے میں یہ حکم لگا یا جائے کہ وہ کمزور تھے ‘ ان میں فلاں نقص تھا یا فلاں کمی تھی وغیرہ انسان ذرا بھی سوچے اور انصاف بینی سے کام لے تو فکر کا یہ تضاد بالکل مبرہن ہو کر سامنے آ جائے گا. حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے طرزِفکر پر انتہائی ملال اور افسو س ہوتا ہے جو کیسی کیسی بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر حضرت عثمانؓ سے سوئے ظن پیداکرنے کی جسارت کرتے ہیں. اور ان لوگوں پر رحم آتا ہے جو ان پر اعتبار کر کے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے متعلق اپنی رائے کو مجروح کر لیتے ہیں اور اپنی آخرت کو برباد کرتے ہیں.