آپ کو شاید معلوم ہو کہ معاندین عثمانؓ نے دورِ عثمانی ہی میں حضرت عثمانؓ پر مسجد نبویؐ میں صحابہؓ اور تابعین کے بھرے مجمع میں بارہ الزامات اور اعتراضات عائد کیے تھے‘ جن کی صفائی حضرت عثمانؓ نے اسی مجمع میں پیش کر دی تھی‘ جس کی تصویب و تائید خود حضرت علیؓ اور دیگر اکابر و اعاظم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی تھی. مفسدین نے بعد میں جب یورش کر کے مدینہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باغیوں کے ایک گروہ سے پوچھا کہ آخر ان کو خلیفہ وقت اور امیر المو منین سے کیا شکایت ہے؟ ان لوگوں نے ان ہی بارہ اعتراضات کا اعادہ کر دیا‘ جن کی صفائی حضرت عثمانؓ ایک بھرے مجمع میں کر چکے تھے اور دوسرے اکابر صحابہؓ کے ساتھ حضرت علیؓ بھی اس کی تصویب و تائید اور توثیق کر چکے تھے . چنانچہ حضرت علیؓ نے اس موقع پر بھی اس گروہ کے سامنے حضرت عثمان ؓ کو بری قرار دیا یہ اور بات ہے کہ مفتریوں کے ارادے ہی خراب تھے.

اس لیے انہوں نے حضرت علیؓ کی تصویب و تائید کو تسلیم نہیں کیا. لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عصر ِحاضر کے ایک صاحب ِعلم اور صاحب ِقلم نے‘ جنہوں نے دین کی خدمت میں کافی مفید کام کیے ہیں اور جن کا بلاشبہ چوٹی کے اہل ِفکر علماء میں شمار ہوتا ہے‘ اپنی ایک کتاب میں ان ہی بارہ الزامات و اعتراضات کو بیان کرتے ہوئے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ پر ایسی تنقید کی ہے جس سے صریح طور پر آپؓ کی تنقیص ہوتی ہے اورآپؓ کے خلاف سوئے ظن پیداہوتا ہے. اسی کتاب کے ایک باب میں حضرت عثمان کے علاوہ حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمروبن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بھی دل آزار تنقید کی گئی ہے‘جس سے مسلمانانِ پاک و ہند کے قلوب انتہائی مجروح ہوئے ہیں اور ؏ ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ والا معاملہ پیش آیا ہے. چنانچہ اس پر ایک گروہ کی طرف سے توخوشنودی کے ڈونگرے برسائے گئے اور بغلیں بجائی گئیں کہ دیکھ لویہ ’’سنی‘‘بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو ہم کہتے آئے ہیں. پھر سنی بھی کس پائے کے! وہ جو مفکر ِاسلام اور مفسّر قرآن ہیں یہ درحقیقت ہماری بدقسمتی اور شامت ِ اعمال ہے.

ویسے اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ زندہ میں سے ُمردہ اور مردے میں سے زندہ برآمد کرتا ہے اور شر میں سے خیر نکال لاتا ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس دل آزار کتاب کے نتیجے میں تاریخی لٹریچر میں بالخصوص بہت سی مفید کتابوں کا اضافہ ہوا. ہمارے ہاں تحقیق و تعمق کے کام میں عرصہ سے جو تعطل و جمود تھا‘ وہ ٹوٹا. چنانچہ تاریخ کو از سر نو کھنگالا گیا‘ اور اس کتاب میں حضرت عثمان‘ حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پاک سیرتوں کو داغدار کرنے کی جوکوشش کی گئی تھی‘ اس کا ازالہ کیا گیا. اسی سلسلہ کی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر مرزا محمد منور صاحب نے ’’میثاق‘‘ میں ایک بڑا پیارا جملہ لکھا تھا کہ : ’’حضرت عثمانؓ پر لگائے ہوئے الزامات و اعتراضات کا اعادہ کر کے اپنی تنقید کی تعمیر کی بنیاد قائم کرنے والے ان مشہور مصنف کے نزدیک شاید حضرت علیؓ کی حیثیت (نعوذ باللہ) کرائے کے وکیل کی تھی‘ جنہوں نے غالباً فیس لے کر حضرت عثمانؓ کی مدافعت کی تھی …‘‘

سوچنے کا مقام ہے کہ جن اعتراضات و الزامات کی صفائی کی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوری دیانت داری سے تصویب و توثیق کی ہو‘ کیونکہ آپؓ کی امانت و دیانت ہمارے 
نزدیک مسلم ہے‘ تو پھر چودہ سو سال بعد بلوائیوں کے الزامات کا اعادہ کرنا کیا حضرت علیؓ کی بھی تنقیص نہیں ہو گی؟ کیا اس طرح ان کی امانت و دیانت مجروح نہیں ہو گی اور ان کی ذات پر حرف نہیں آئے گا؟ اللہ شرور نفس سے بچائے‘ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اچھے اچھے معقول لوگ کیسی کیسی ٹھوکریں کھاتے ہیں یہ اسی کتاب کی تنقیدوں کا شاخسانہ ہے کہ اس سے متاثر ہو کر ہمارے کتنے ہی سنی بھائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سوئے ظن میں مبتلا ہوگئے ہیں اور کتنے ہی ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہاور فاتح مصر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے نام ادب سے نہیں لے سکتے بلکہ ان کی شان میں گستاخانہ اسلوب اختیار کرتے ہیں. ذہنوں کو اتنا مسموم کر دیا گیا ہے کہ خود اہل سنت کے ایک گروہ میں‘ چاہے وہ تعداد کے لحاظ سے قلیل ہی کیوں نہ ہو ‘ ان تینوں جلیل القدر صحابہؓ کے علاوہ بہت سے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف سوئے ظن پیدا ہو گیا ہے‘ جن میں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ‘ حواری رسول ؐ حضرت زبیر بن العوام اور حضرت طلحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل ہیں.