اس موقع پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص صحابہ کرامؓ اور بالخصوص خلفائے راشدین‘ عشرۂ مبشرہ‘ اصحابِ بدر اور اصحاب بیعت رضوان( رضوان اللہ علیہم اجمعین) پر تنقید کرتا ہے‘ ان کی تنقیص کرتا ہے‘ ان پر زبانِ طعن دراز کرتا ہے اور ان کا ادب و احترام ملحوظ نہیں رکھتا تو معاملہ اس حد تک محدود نہیں رہتا ‘بلکہ خالص علمی تجزیہ کیا جائے تو اس کی زد میں سرور عالم‘ محبوب خدا‘ خاتم النبیین والمرسلین محمد ُرسول اللہ کی ذاتِ گرامی بھی آ جاتی ہے. اس لیے کہ کسی کے تربیت یافتہ اور شاگرد میں کوئی کمی یا نقص یا کوئی تقصیر ہو تو ّمربی‘ معلم اور استاد اس سے بالکل بری نہیں ہو سکتا. وہ بھی کسی نہ کسی درجہ میں ذمہ دار قرار پاتا ہے. اسی بات کو حضور کی اس حدیث میں واضح کیا گیا ہے:

اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِیْ اَصْحَابِیْ ‘ لَا تَتَّخِذُوْھُمْ غَرَضًا بَعْدِیْ‘ فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّھُمْ‘ وَمَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَھُمْ‘ وَمَنْ آذَاھُمْ فَقَدْ آذَانِیْ‘ وَمَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَی اللّٰہَ‘ وَمَنْ آذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ اَنْ یَاْخُذَہٗ (رواہ الترمذی)
’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘ ان کو میرے بعد نشانہ نہ بنانا. پس جس شخص نے ان کو محبوب جانا تو میری محبت کی وجہ سے محبوب جانا اور جس شخص نے ان کے ساتھ بغض رکھا تو میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان کے ساتھ بغض رکھا. اور جس شخص نے ان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی‘ اس نے اللہ کو تکلیف دی‘ اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو وہ عنقریب اس کو گرفت میں لے لے گا.‘‘

یہ وہ حدیث ہے جو تقریباً ہر خطبہ جمعہ میں ہمارے خطباء سناتے ہیں.