شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کا تاریخی پس منظر

اب ہم شہید مظلوم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تاریخی پس منظر اور ان اسباب و علل کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ سانحہ ٔفاجعہ ظہور پذیر ہوا. میں عرض کر چکا ہوں کہ ہر واقعہ کے کچھ اسباب ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ باطنی اور مخفی. اور دراصل مؤثر کردار یہ باطنی و مخفی اسباب ہی ادا کرتے ہیں ‘لیکن چونکہ عام طو رپر ظاہری اسباب نظروں کے سامنے ہوتے ہیں لہذا ان مخفی اسباب کی طرف توجہ بہت کم مبذول ہوتی ہے بلکہ وہ نظر ہی نہیں آتے.

آپ تاریخی اعتبار سے اس پر غور کیجیے. اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کو جو کامیاب فرمایا‘ آپؐ کو غلبہ عنایت فرمایا اور آپؐ کے مشن ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ کی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک آنحضور کی حیاتِ طیبہ میں تکمیل ہو گئی اور آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کے مشن اور اسلام کے پیغام کو لے کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین باہر نکلے تو جو لوگ مفتوح ہوئے اور جن لوگوں نے شکست کھائی ‘ غور کیجیے کہ وہ کون کون لوگ تھے! یہ دو بڑے بڑے گروہ تھے پہلا وہ جس نے مذہبی طور پر اوردوسرا وہ جس نے سیاسی طور پر شکست کھائی.

مذہبی گروہ میں سے مشرکین عرب کا تو تیاپانچا کر دیا گیا. ان کے حق میں تو سورۃ التوبہ کی وہ آیات نازل ہوگئیں کہ ان مشرکوں کو چار مہینے کی مہلت ہے‘ اگر اس کے اندر یہ ایمان لے آئیں تو اس سرزمین میں رہ سکتے ہیں‘ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر یہ مشرکین اس چار ماہ کی مہلت سے فائدہ نہ اٹھائیں‘ یعنی نہ ایمان لے آئیں‘ نہ ترکِ وطن کریں تو تم ان کو جہاں بھی پاؤ قتل کرو:

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ (آیت ۵)
’’پس جب محترم مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ‘ اور انہیں پکڑو اور گھیرو‘ اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو!‘

ان آیات نے فیصلہ کر دیا کہ مشرکین عرب کے ساتھ کوئی رورعایت اور کوئی نرمی کا معاملہ نہیں ہو گا. اب شرک پر ڈٹے رہنے کے سبب سے ان کو تہ تیغ کر دیا جائے گا اور ان پر عذابِ استیصال کی سنت اللہ پوری ہو گی‘ جو اُن قوموں کے لیے مقرر ہے جن کی طرف رسول براہِ راست مبعوث کیے جاتے ہیں. اور حضور ان ہی میں سے اٹھائے گئے تھے اور حضور کی دعوت کے اوّلین مخاطب یہی لوگ تھے لیکن یہود و نصاریٰ کو ایک رخصت دی گئی کہ تم اپنے دین پر قائم رہ سکتے ہو‘ البتہ تمہیں چھوٹا بن کر اور مغلوب بن کر رہنا ہو گا اور جزیہ ادا کرنا ہو گا:

قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ (التوبۃ)
’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے ہو کر رہیں.‘‘

یہ رعایت تھی جو اہل کتاب کے ساتھ اسلام نے کی. اس رعایت سے اہل کتاب بالخصوص یہود نے غلط فائدہ اٹھایا. ان میں جوشِ انتقام پہلے ہی سے موجود تھا‘ ان کی مذہبی سیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کے نام نہا دتقویٰ کا بھرم کھل چکا تھا. ان کی حیثیت عرب میں بالکلیہ مغلوب اور ذمی کی ہو گئی تھی‘ جس پر جزیہ کی ادائیگی ان کے لیے بڑی شاق تھی.
اہل کتاب کے ساتھ قرآن مجید میں جو معاملہ کیا گیا ہے‘ اس کے بھی دو رخ ہیں. قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوت میں جزیرہ نمائے عرب میں جو نصاریٰ تھے‘ ان کی قرآن نے کہیں کہیں تعریف و توصیف بھی کی ہے. ان میں خدا ترس لوگ موجود 
تھے‘ ان میں قبولِ حق کی استعداد تھی. پھر نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں نصاریٰ سے کوئی مسلح تصادم اور معرکہ بھی پیش نہیں آیا. جبکہ یہود کا معاملہ اس کے برعکس ہے.

ان پر قرآن میں بڑی شدید تنقیدیں ہوئی ہیں. سورۃ البقرۃ کے دس رکوعات میں (چوتھے رکوع سے چودھویں رکوع تک) مسلسل ایک قراردادِ جرم ہے جو یہودیوں پر عائد کی گئی ہے. پھر ان کے تین قبیلوں کو مدینہ سے نکالا گیا. ایک قبیلے کی تعدی و سرکشی اور بدعہدی کی وجہ سے خود ان کے مقرر کردہ حکم کے فیصلے کے مطابق ان کے جنگ کے قابل تمام مردوں کو تہ تیغ کیا گیا. پھر خیبر‘ جو ان کا مضبوط ترین گڑھ تھا‘ جہاں مستحکم قلعہ بندیاں تھیں‘ اور جہاں مدینہ سے نکلے ہوئے تمام یہودی جمع تھے اور وہ ہر طرح کیل کانٹے سے لیس تھے‘ وہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا. لہذا سب سے زیادہ زخم خوردہ یہود تھے. عیسائی بھی زخم خوردہ تھے ‘لیکن ان کا معاملہ اتنا شدید نہیں تھا جتنا یہودیوں کا تھا. لہذا انتقام کے لیے سب سے پہلے یہودیوں نے ریشہ دوانیاں اور سازشیں کیں. اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جتنا عظیم سازشی ذہن اس قوم کا ہے اور اس میں اس کو جو مہارتِ تامہ حاصل ہے اس کا کوئی دوسری قوم مقابلہ نہیں کر سکتی. ہندوؤں کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قوم بھی بڑا سازشی ذہن رکھتی ہے‘ تو جدید تحقیق یہ ہے کہ ہندو قوم بھی نسلی اعتبار سے یہودی ہے اور یہ قوم یہودیوں کے گم شدہ قبائل (The Lost Tribes of Israel) سے تعلق رکھتی ہے. لہذا یہود و ہنود میں جہاں قافیہ ایک ہے وہاں مزاجی کیفیت میں بھی بڑی یکسانیت ہے.

یہ یہودی سازشی ذہن ہی کا شاخسانہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوتِ توحید کے چشمۂ صافی میں سب سے زیادہ گھناؤنا اور عریاں ترین شرک شامل کردیا گیا اور اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوری اُمت کو بدترین شرک میں مبتلا کر دیا گیا. یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو باقاعدہ اللہ کا صلبی بیٹا قرار دے دیا گیا اور ان کو الوہیت میں شریک ٹھہرایا گیا. پھر روح القدس کو‘ جس سے بعض فرقوں کے نزدیک حضرت جبرائیل علیہ السلام مراد ہیں اور بعض کے نزدیک حضرت مریم‘ اقانیم ثلاثہ میں شامل کر کے اس طرح تثلیث کا عقیدہ گھڑا گیا. یہ کام اُس انتہائی متعصب یہودی نے انجام دیا جو کہ سینٹ پال کے نام سے مشہور و معروف ہے. اُس نے بظاہر عیسائیت قبول کی اور پھر دین عیسوی کے بخیے ادھیڑ دیے. اسی سازشی ذہن کا پیکر کامل 
یمن کا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا‘ جو بظاہر مسلمان ہوا اور اس نے مسلمانوں میں شامل ہو کر سازشی ریشہ دوانیاں شروع کیں. اس شخص نے اہل بیت کی محبت کا جھوٹا لیکن دلفریب لبادہ اوڑھ کر مفتوحہ علاقوں کے نومسلموں میں اپنے کارکنوں کے ذریعے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مہم شروع کر دی اور ان سیدھے سادے نومسلم عوام کی عقیدتوں کا رخ شخصیت پرستی کی طرف موڑ دیا.

دوسری جانب سیاسی اعتبار سے دیکھئے‘ جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو دنیا میں دو عظیم مملکتیں تھیں‘ ایک سلطنت ِروما‘ جو تین براعظموں تک وسیع تھی اور یورپ کے اکثر ممالک‘ مغربی ایشیا کے چند علاقے اور شمالی افریقہ کے تقریباً تمام ممالک قیصر روم کے زیر نگیں یا باج گزار تھے. دوسری عظیم سلطنت کسریٰ کی تھی‘ یعنی ایران. خلافت ِ راشدہ خصوصاً دورِ فاروقی میں سلطنت ِکسریٰ کی دھجیاں اڑ گئیں‘ بلکہ اس کا تو وجود ہی صفحۂ ہستی سے محو ہو گیا. یہ نتیجہ تھا اس گستاخی کا جو خسروپرویز نے نبی اکرم کے نامہ ٔمبارک کے ساتھ کی تھی‘ جس کے ذریعے اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی. حضور نے تو اسی وقت فرما دیا تھا کہ کسریٰ نے میرا نامہ چاک نہیں کیا بلکہ اپنی سلطنت کے پرخچے اڑا دیے. اس گستاخی کی اسے نقد سزا تو یہ ملی کہ اسی وقت سے ایران میں محلاتی سازشوں نے سر اٹھایا جن کے نتیجے میں خسروپرویز قتل ہوا اور یکے بعد دیگرے مختلف افراد تخت ِکسریٰ پر متمکن ہوئے جبکہ سلطنت ِروما کی تو صرف ایک ٹانگ ٹوٹی.

اس کے صرف مغربی ایشیا کے مقبوضات اور شمالی افریقہ میں سے صرف مصر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلام کے پرچم تلے آئے. یورپ کے جو ممالک قیصر روم کے قبضے میں تھے وہ جوں کے توں باقی رہے اور سلطنت ِروما کی سطوت کافی بڑی حد تک باقی رہی. شمالی افریقہ کے دوسرے مقبوضات دورِ عثمانی میں اسلامی مملکت کے زیر نگیں آئے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘سلطنت کسریٰ کی تو دورِ فاروقی میں دھجیاں اڑ گئیں‘ اس کا تو وجود ہی باقی نہیں رہا لہذا جہاں تک انتقامی جذبات کا معاملہ ہے تو وہ سب سے زیادہ شدید ایرانیوں کے اندر موجزن تھے. اسی سے آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایرانیوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اتنا بغض کیوں ہے! اسی کا مظہر ہے کہ ایران میں جیسے دوسرے اکابر اور اہل بیت کے مقبروں کی شبیہیں اور تصویریں بطور تقدس چھپتی اور گھروں میں لگائی جاتی ہیں‘ اسی طرح اس بدبخت ابولولو فیروز مجوسی کی قبر کی شبیہیں اور تصویریں فروخت ہوتی ہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر شخصیت‘ خلیفہ ٔراشد اور امیر المؤمنین کا قاتل تھا‘ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے نیچے یہ عبارت لکھی ہوتی ہے : ’’قبر مبارک حضرت ابولولوفیروز‘‘ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ. اس ناہنجار مجوسی کی قبر کی تقدیس اور اس کے نام کی توقیر صرف اس لیے کہ اس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ کا چراغ بجھایا تھا‘ جو ایران کے حقیقی فاتح تھے.
اب آپ غورکیجیے کہ اسلام کے خلاف دو طرفہ سازشیں شروع ہوئیں. ایک جانب یہودیوں کی طرف سے جو مذہبی سیادت کے لحاظ سے زخم خوردہ تھے اور دوسری جانب ان مجوسیوں کی طرف سے جو چاہے بظاہر مسلمان ہو گئے ہوں ‘لیکن جو سلطنت کسریٰ کے پرخچے اڑ جانے کی وجہ سے شکست خوردہ تھے اور آتش انتقام میں جل رہے تھے. نتیجتاً مذہبی اعتبار سے انتقام کے سب سے زیادہ شدید جذبات یہودیوں میں تھے اورسیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ انتقام کے جذبات ایرانیوں میں تھے. یہ دونوں ہی چاہتے تھے کہ اللہ کے دین کے چراغ کو اپنی ریشہ دوانیوں‘ سازشوں اور افواہوں سے بجھا دیں.

اس انتقام کی پہلی کڑی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی‘ اور اس کے ذریعے خلافت اسلامی کو سبوتاژ کرنا مقصود تھا‘ لیکن اسلام کے دشمنوں کو اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تخت خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حالات پر پوری طرح قابو پا لیا‘ بلکہ داخلی امن وامان اور استحکام کے ساتھ تمام شورشیں اور بغاوتیں نہ صرف فرو کر ڈالیں بلکہ فتوحات کا دائرہ وسیع تر ہونے لگا تو اب یہودی سازشی ذہن اور آگے بڑھا اور اُس نے اپنی وہ خفیہ کارروائیاں تیز کر دیں جن کی داغ بیل عبداللہ بن سبا دورِ صدیقی میں ڈال چکا تھا. اس سازشی کام کے لیے اس کو ایران کی زمین سب سے زیادہ سازگار نظرآئی. یہاں وہ عنصر بھی اچھی خاصی تعدا د میں موجود تھا جو بظاہر مسلمان لیکن ذہناً مجوسی اور شاہ پرست تھا اور انتقام کی آگ میں جل رہا تھا‘ اور وہ سیدھے سادے عوام بھی موجود تھے جن کی گھٹی میں شخصیت پرستی اور ہیروورشپ 
(Heroworship) پڑی ہوئی تھی اور جو ہر بڑے اور ہر مقدس شخص کے اہل بیت کو بھی بڑا اور مقدس سمجھنے کے صدیوں سے خوگر تھے. حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ بن سبا کی سازش پال کی سازش سے کم نہیں تھی .

لیکن اسلام اللہ کا آخری دین ہے‘ نبی اکرم آخری نبی و رسول ہیں‘ اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہدایت ہے‘ جسے اللہ نے محفوظ رکھنے کی خود ذمہ داری لے رکھی ہے : اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) اوراللہ کی طرف سے وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ کا اٹل فیصلہ ہو چکا تھا. حضرت مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو مسخ کیا گیا اور دین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تو قرآن نے آ کر تصحیح کر دی اور دین حق مبرہن ہو گیا. اگر حضور کی شخصیت کو اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کو مسخ کر دیا جاتا تو پھر کون تھا جو اس کی تصحیح کرتا؟ چونکہ نبی اکرم خاتم النبیین اور ختم المرسلین ہیں لہذا حضور کی شخصیت‘ دین اسلام اور قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفظ عطا ہوا. نیز اُمت مسلمہ کو یہ فضیلت بھی عطا ہوئی کہ اُمت کے علمائے حق کا مقام حضور کے ارشاد گرامی کے مطابق انبیائے بنی اسرائیل کے مطابق قرار پایا. مزید برآں حضور نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ میری اُمت کا ایک گروہ ہر دور میں حق پر قائم رہے گا لہذا یہ سازش بالکلیہ کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی. لیکن اس سازش کے وہ گندے اور نجس انڈے بچے تھے جن کے ہاتھوں خلیفۂ ثالث عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور علوی خلافت کا پورا دور فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی نذر ہو گیا اور اس دور میں چوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے شہید ہوئے. یہ درحقیقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کاخمیازہ تھا. جب کسی حقیقی بندۂ مؤمن کو ستایا جاتا ہے‘ جب کسی مؤمن صادق کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ جب کسی اللہ والے کے دل کو دکھایا جاتا ہے‘ جب اللہ اور اس کے رسول کے کسی محبوب کا ناحق خون بہایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب بھڑکتا ہے اور مختلف صورتوں میں عذابِ الٰہی کا ظہور ہوتا ہے‘ جس کی ایک بڑی المناک صورت آپس کی خانہ جنگی اور خونریزی ہوتی ہے‘ جو ہمیں دورِ علوی میں نظر آتی ہے.