اسلام کی تاریخ قربانیوں اور شہادتوں سے بھری پڑی ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ’’شہید مظلوم‘‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں. اس سے قبل مسلمان کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے‘ انفرادی طور پر بھی اور میدانِ قتال میں بھی‘ جہاں انہوں نے کفار کو قتل بھی کیا اور خود شہادت کے مرتبہ عالیہ سے سرفراز بھی ہوئے. لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ پہلے مردِ صالح ہیں جو امامِ وقت‘ خلیفہ ٔراشد اور امیر المؤمنین ہوتے ہوئے خود مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے. آپؓ ‘ محبوبِ رسولِ خدا ہیں‘ اور محبوب بھی کیسے کہ جن کے حبالہ ٔنکاح میں یکے بعد دیگرے حضور کی دو صاحبزادیاں آئیں جن کے حسن سلوک سے نبی اکرم اتنےخوش تھے کہ یکے بعد دیگرے اپنی چالیس بیٹیاں آپ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کے لیے راضی تھے اور جن کے متعلق حضور نے یہ بشارت دی تھی کہ لِکُلِّ نَبِیٍّ رَفِیْقٌ وَرَفِیْقِیْ یعنی فِی الْجَنَّۃِ عُثْمَانُ (ترمذی) ’’(جنت میں) ہر نبی کے ساتھ اس کی امت سے ایک رفیق ہو گا اور عثمان( رضی اللہ عنہ) میرے رفیق ہیں‘ وہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے.‘‘

وہ بزرگ ہستی انتہائی مظلومیت کی حالت میں قتل ہوئی جو کاتب وحی تھی. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ ’’بخدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم کے پاس بیٹھے ہوتے اور حضورؐ پر اس حال میں وحی نازل ہوتی کہ حضورؐ اپنی پشت سے مجھ پر سہارا لگائے ہوئے ہوتے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرماتے کہ لکھو‘‘. چنانچہ کتب سیر میں منقول ہے کہ جب باغیوں کے حملہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا داہنا ہاتھ کاٹا گیا تو آپؓ نے فرمایا: ’’یہ وہی ہاتھ ہے جس نے سورِ مفصّل کو لکھا تھا‘‘ وہ مبارک شخصیت حالت محصوری میں شہید کی گئی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُمت پر یہ احسان فرمایا کہ پوری اُمت کو ایک مصحف پر مجتمع اور متفق کر دیا. آج ہم جس قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں وہ ’’مصحف عثمانی‘‘ کہلاتا ہے‘ جو اُمت تک بہ تمام وکمال صحت کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی کی بدولت منتقل ہوا.چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد (جو دور عثمانی میں ہوئی تھی) مدینہ تشریف لائے توانہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عراق وشام میں قراء تِ قرآن کے اندر مسلمانوں کے اختلاف کا ذکر بڑی تشویش کے ساتھ کیا اور کہا: ’’یا امیر المومنین! یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف ہونے سے پہلے اس کا تدارک کر لیجیے‘‘.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اُمّ المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہماسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع کیا ہوا مصحف منگوا 
بھیجا اور آپؓ نے اس مصحف کو قریش کی زبان کے موافق لکھوایا‘ اس لیے کہ قریش کی زبان ہی میں قرآن حکیم نازل ہوا تھا ‘اور اس مصحف کی نقول تمام بلادِ اسلامیہ میں بھیج دیں.

وہ معتمد شخصیت مظلومانہ طور پر شہید کی گئی جس پر رسول اللہ کو‘ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کامل اعتماد تھا اور جو ہر نازک موقع پر مشوروں میں شریک رہے. یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ مرض الموت میں جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے جانشین کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے وصیت لکھوا رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھوانے سے قبل آپ ؓ پر غشی طاری ہو گئی‘ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھ دیا. جب غشی دور ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’پڑھیے کیا لکھا ہے‘‘. جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام سنا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں اور کہا: ’’ آپ نے عمر کا نام اس لیے لکھ دیا کہ مبادا اس غشی میں میری جان چلی جائے.‘‘

جنت کے بشارت یافتہ اُس امامِ وقت کا خون ناحق بہایا گیا جن سے احادیث کی معتبر کتابوں میں ایک سو چالیس حدیثیں مروی ہیں‘ جن میں وہ مشہور حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے اور ہماری دعوت رجوع الی القرآن میں رہنما اصول کے طور پر شامل ہے کہ : 
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’تم میں بہترین وہ ہے جس نے خود قرآن سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا‘‘. آپ کو معلوم ہے کہ نبی اکرم نے خوشخبری دی ہے کہ جس مؤمن صالح نے چالیس حدیثیں یاد کر لیں تو وہ قیامت کے روز علماء کے زمرے میں اٹھایا جائے گا‘ تو جن کو ایک سو چالیس احادیث نہ صرف یاد ہوں بلکہ انہوں نے آنحضور سے سن کر روایت کی ہوں‘ ان کے مرتبے اور مقام علوم کا کیا کہنا!

اُس عالی مقام بزرگ کو شہید کیا گیا جس سے خدا بھی راضی تھا اور رسول اللہ بھی راضی تھے. چنانچہ مستدرک حاکم میں ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ’’ایک دن حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہانے آنحضور سے دریافت کیا کہ میرا شوہر بہتر ہے یا فاطمہ رضی اللہ عنہاکا؟ حضور نے کچھ دیر سکوت فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’تمہارا شوہر ان لوگوں میں سے ہے جو خدا اور رسولؐ کو دوست رکھتے ہیں اور خدا اور رسولؐ ان کو دوست رکھتا ہے‘‘ پھر حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’میں تم سے اس سے بھی زیادہ بیان کرتا ہوں‘ وہ یہ کہ 
میں (معراج میں) جب جنت میں داخل ہوا اور عثمان کا مکان دیکھا تو اپنے صحابہ میں سے کسی کا ایسا نہیں دیکھا‘ ان کا مکان سب سے بلند تھا‘‘. اس روایت کے ساتھ ہی ابن عباس رضی اللہ عنہاپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’میں کہتا ہوں کہ یہ بلوے پر صبر کرنے کا ثواب ہے.‘‘

شہادت سے قبل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تقریباً پچاس دن محاصرے کی حالت میں رہے اور اس دوران بلوائیوں نے پانی کا ایک مشکیزہ تک امامِ وقت کے گھر میں پہنچنے نہیں دیا. ان مفسدین کی شقاوتِ قلبی دیکھئے کہ اس شخص پر پانی بند کردیا گیا جس نے اپنی جیب خاص سے بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا. روایات میں آتا ہے کہ دگرگوں حالات کے باعث اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہاحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لوگوں کی وہ امانتیں لینے جانا چاہتی تھیں جو آپ کے پاس محفوظ تھیں اور اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہانے پانی کا ایک مشکیزہ بھی ساتھ لے لیا‘ لیکن باغیوں نے نیزوں کے پھلوں سے مشکیزے میں چھید کر دیے‘اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہاکی شان میں گستاخی کی اور ان کو اندر نہیں جانے دیا. یہی واقعہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہماکے ساتھ پیش آیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ان دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پانی کی ایک مشک بھیجی. ان کا خیال تھا کہ بلوائی کم از کم حسنین رضی اللہ عنہماکا تو لحاظ کریں گے ‘ لیکن ظالموں نے ان کی بھی پروا نہیں کی اور مشک کو نیزوں سے چھید دیا.

ایک طبقہ کی طرف سے کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خانوادے کی پیاس کے چرچے کو اتنا عام کیا گیا‘ اتنا پھیلایا گیااور مسلسل پھیلایا جاتا ہے کہ اہل سنت کے ذہنوں پر بھی یہی بات مسلط ہے کہ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر پانی بند کر کے جس ظلم اور شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کیا گیا تھا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی. بلاشبہ یہ انتہائی شقاوت تھی‘ اس سے انکار نہیں‘ لیکن اس کے اس قدر چرچے کی اصل غایت یہ ہے کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر پچاس دن رات پانی بند رکھنے کے باعث اس امام برحق اور اس کے اہل خاندان پر جو مصیبت گزری تھی وہ مسلمانوں کے اجتماعی حافظے سے محو ہو جائے. یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے عوام تو درکنار اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی یہ معلوم تک نہیں کہ خلفائے راشدین میں سے تیسرے 
خلیفہ‘ فضیلت کے لحاظ سے پوری امت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں تیسرے مقام پر فائز شخصیت‘ نبی اکرم کے دوہرے داماد کس بہیمانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گئے تھے. کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر کتنے دن پانی بند رہا؟ مشہور روایات کے مطابق ۷ محرم الحرام کو تو وہ میدان کربلا میں پہنچے تھے اور ۱۰ محرم کو ان کی شہادت ہو گئی. یعنی زیادہ سے زیادہ چار دن پانی بند رہا. پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ دریائے فرات سے کچھ ہی فاصلہ پر مقیم تھا‘ جہاں تھوڑا سا گڑھا کھودا جائے تو پانی برآمد ہو جاتا ہے‘ البتہ وہ گدلا اور ناصاف ہوتا ہے. چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ ایسا ہی ہوا. گڑھے کھودے گئے اور گدلا پانی فراہم کیا گیا.

لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تو پچاس دن کے لگ بھگ پانی بند رکھا گیا اور وہ اپنے مکان کے بالاخانے کی بالکونی سے بلوائیوں اور محاصرہ کنندگان سے فریاد کرتے رہے کہ ’’میں تم کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں‘ کیا تم جانتے ہو کہ بِئر رومہ سے کوئی شخص بلاقیمت پانی نہیں پی سکتا تھا‘ پھر میں نے اس کو خرید کر وقف کر دیا تو امیر و غریب اور مسافر سب اس سے سیراب ہوتے ہیں!‘‘ لوگوں نے کہا’’ہاں ہم جانتے ہیں‘‘. لیکن اس کے باوجود ان ظالموں کی طرف سے امام مظلوم رضی اللہ عنہ کو پانی پہنچنے نہیں دیا گیا.حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کا اتنا چرچا کیا گیا‘ اس میں اتنی رنگ آمیزی کی گئی اور ان کی پیاس کی مبالغہ آمیز داستان اس لیے گھڑی گئی تاکہ اُمت کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پیاس یاد نہ رہے. حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر مظلومیت کا رنگ اس لیے چڑھایا گیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومیت آنکھوں سے اوجھل ہو جائے. ایک واقعہ کو پورے ڈرامائی انداز سے‘جو اپنی جگہ کتنا ہی المناک کیوں نہ ہو‘عوام الناس میں اس طرح پھیلا دیا گیا ہے کہ اب کوئی جانتا ہی نہیں کہ اُمت کے اصل مظلوم شہید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں. پھر ہر سال اس کا اتنا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ گویا تاریخ اسلا م میں کوئی اس سے زیادہ المناک اور عظیم سانحہ وقوع پذیر ہوا ہی نہیں.

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سانحہ کربلا بھی انتہائی المناک تھا اور یہ تاریخ اسلام کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے ‘لیکن ہر واقعے اور سانحے کا ایک مقام اور مرتبہ ہے‘ اس کو اسی مقام پر رکھنا چاہیے‘ افراط و تفریط سے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے. حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ‘ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت 
قابل افسوس حادثہ ہے ‘ لیکن آپؓ میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے. مدمقابل دشمن کو قتل بھی کیا اور مقتول بھی ہوئے. میں یہ کہتا ہوں کہ چاہے ایک کا ایک سو سے مقابلہ ہو‘ لیکن جب کوئی میدان جنگ میں ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار بھی ہے تو ’’فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ‘‘ والا معاملہ کسی نہ کسی درجے میں تو درپیش ہے. مقابلہ کرنے والا قتل بھی کرتا ہے اور مقتول بھی ہوتا ہے.

لہذا یہ صورت حال بالکل دوسری ہے لیکن ذرا تقابل توکیجیے میدانِ کربلا کے میدانِ کارزار کا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقریباً پچاس دن کے محاصر ے کے بعد شہادت کا. وقت کی عظیم ترین سلطنت کا فرماں روا‘ جس کی حدودِ مملکت کا یہ عالم ہو کہ حضرت ذوالقرنین جیسے عظیم بادشاہ کی سلطنت سے بھی سہ چند وہ اگر ذرا اشارہ کر دیتے تو اتنی فوجیں جمع ہو سکتی تھیں جن کا شمار ممکن نہیں. مصر‘ شمالی افریقہ‘ شام و فلسطین‘ یمن‘ نجد‘ حجاز‘ عراق اور ایران کے جان نثار گورنرز‘ سب ان کے ایک حکم پر لشکر جرار کے ساتھ حاضر ہو سکتے تھے.حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انتہائی اصرار کرتے رہے کہ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم ان بلوائیوں‘ شورش پسندوں ‘ فتنہ گروں اور باغیوں سے نمٹ لیں‘ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زبان پر ایک حکم تھا کہ ’’نہیں‘‘. اگر اس پیکر صبر ورضا کی زبان سے ایک لفظ بھی اجازت کا نکل جاتا تو بلوائیوں اور باغیوں کی تکہ بوٹی ہو جاتی اور ان کا نام و نشان ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس آزمائش میں صبر و ثبات‘ حلم و تحمل اور قوت برداشت کے کوہِ ہمالیہ نظر آتے ہیں. انہیں اپنی جان دینا قبول‘ اپنی بے حرمتی منظور‘لیکن یہ بات کسی حال میں منظور نہیں کہ ان کی وجہ سے کسی بھی کلمہ گو کے خون کی ایک بوند گرے.