صبر و تحمل کی عظیم مثال

میں حیران ہوتا ہوں ان لوگوں کی عقل اور سمجھ پر جو کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کمزور طبع تھے. میں کہتا ہوں کہ خدا کے بندو! غور کرو‘ کوئی کمزور آدمی ایسا دیکھا ہے جو ان حالات میں‘ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پیش آئے‘ تحمل و حلم اور صبر و ثبات کا بے نظیر مظاہرہ کر سکے. جب بلی کی جان پر بن آتی ہے تو وہ پکڑنے والے کے حلقوم پر جھپٹا مارنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے. ادھر حال یہ ہے کہ ایک اشارے پر بے شمار جان نثار جمع ہو سکتے ہیں‘ جو پسینے کی جگہ خون بہانا اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں. کمزور آدمی تو فوراً مشتعل ہو جاتا ہے‘ کمزور آدمی میں حلم کہاں اور تحمل کہاں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ساری قوت‘ سارے وسائل اور سارا دبدبہ رکھتے ہوئے بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ چاہے میری جان چلی جائے‘ میرا خون بہہ جائے‘ لیکن میں اپنی حفاظت میں کسی کلمہ گو کا خون بہانے کے لیے تیار نہیں. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے تو ہمارے ہاتھ باندھ دیے ہیں‘ ہم کریں تو کیا کریں. آپ کو معلوم ہو گا کہ بلوائیوں کی کل تعداد اٹھارہ سو تھی. بعض لوگ تعجب کرتے ہیں کہ عین دارالخلافہ میں اٹھارہ سو نفوس کس طرح پچاس دن محاصرہ کے بعد خلیفہ وقت کو قتل کر گئے.

یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پابند کر دیا تھا کہ میری مدافعت کے لیے تلوار نہیں اٹھائی جائے گی‘ میں کسی کلمہ گو کے خون کی چھینٹ اپنے دامن پر برداشت نہیں کر سکتا. یہ بلوائی بلاشبہ باغی تھے‘ منافق تھے‘ لیکن تھے تو کلمہ گو. یاد کیجیے رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے گستاخانہ رویہ پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم سے عرض کیا تھا کہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں. لیکن حضور نے فرمایا تھا کہ نہیں عمرؓ ! وہ کچھ بھی ہو‘ اس کو کلمہ کا تحفظ حاصل ہے. عین حالت جنگ میں ایک شخص نے اس وقت جبکہ وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی تلوار کی زد میں آ گیا تھا‘ کلمہ پڑھ دیا‘ لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا. انہوں نے وہی کچھ سمجھا جو ایسے موقع پر ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے.

جب حضور کے علم میں یہ بات آئی اور حضور نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ حضورؐ ! اس نے تو جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا. حضور نے ارشاد فرمایا : اے اسامہ! قیامت کے دن کیا کرو گے جب وہ کلمہ تمہارے خلاف استغاثہ لے کر آئے گا‘ جس کی ڈھال ہوتے ہوئے تمہاری تلوار اس شخص کی گردن پر پڑی؟ اِدھر یہ بلوائی کلمہ کی ڈھال لیے ہوئے تھے‘ اُدھر معاملہ تھا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے‘ جو ایک طرف ’’کامل الحیاء والایمان‘‘ تھے تو دوسری طرف صبر و ثبات اور حلم و تحمل کی آہنی چٹان تھے. ورنہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک اشارے پر ان بلوائیوں کی تکا بوٹی کر دی جاتی. ایسی ہستی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کمزور طبع تھے. کمزور طبع شخص تو مایوسی کے عالم میں انتہائی مشتعل (desperate) ہو جاتا ہے اور وہ کچھ کرگزرتا ہے جو عام حالات میں کسی زور آور اور مضبوط انسان سے بھی بعید ہوتا ہے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت کا یہ حصہ گواہی دے رہا ہے کہ آپؓ صبر و استقامت کے ایک پہاڑ تھے. اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر اسے عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مغالطوں‘ غلط فہمیوں اور فریبوں کے پردے چاک ہوں.

اس ضمن میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں درج کی ہے. حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محاصرہ کی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ امیر المؤمنین ! میں آپ کے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں‘ ان میں سے کوئی ایک اختیار فرما لیجیے‘ ورنہ یہ بلوائی آپ کو ناحق قتل کر دیں گے. یا تو آپ باہر نکل کر ان بلوائیوں سے مقابلہ کیجیے‘ مدینہ میں بہت سے لوگ آپ کے ساتھ ہیں‘ آپ کو قوت و شوکت حاصل ہے‘ آپ حق پر ہیں اور یہ باطل پر‘ لہذا یہ بلوائی ہرگز مقابلے میں نہ ٹھہر سکیں گے. یا پھر اپنے مکان کی پشت پر ایک نیا دروازہ نکلوا لیجیے اور سواریوں پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ چلے جایئے. اس طرح یہ لوگ مکہ کی حرمت کی وجہ سے آپ پر دست درازی نہ کر سکیں گے اور آپ قتل سے محفوظ رہیں گے. یا پھر آپ شام چلے جایئے جہاں کے لوگ آپ کے وفادار ہیں اور جہاں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں.

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تینوں تجویزوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ لڑنے کے متعلق تو یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میں رسول اللہ کی اُمت میں پہلا خونریز خلیفہ بنوں اور اپنی مدافعت میں مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہاتھ بہانے کا سبب بنوں. مکہ اس لیے نہیں جاؤں گا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا تھا کہ قریش کے جس شخص کی وجہ سے مکہ میں ظلم ہو گا اس پر نصف عالم کے برابر عذاب ہو گا. میں نہیں چاہتا کہ میں ہی وہ شخص بنوں. جبکہ دارالہجرت اور نبی اکرم کا قرب چھوڑ کر شام چلے جانا مجھے کسی طرح گوارا نہیں.

ابن سیرینؒ سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بلوائیوں کا محاصرہ توڑ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ’’انصار دروازے پر موجود ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو ہم دو مرتبہ انصار اللہ بن جائیں‘‘. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’میں قتال کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘.اسی قسم کی ایک روایت حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ : ’’انصار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: یاامیر المومنین! ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی دوسری مرتبہ مدد کریں. ایک مرتبہ تو ہم نے رسول اللہ کی مدد کی تھی‘ اب دوسری مرتبہ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں‘ میں اپنے لیے ہرگز خون ریزی کی اجازت نہیں دوں گا. تم واپس چلے جاؤ‘‘. حضرت حسن رضی اللہ عنہ مزید کہتے ہیں کہ بخدا اگر وہ لوگ صرف چادروں سے آپ رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرتے تو آپ کو بچا لیتے. ایسے شخص کے متعلق یہ حکم لگانا کہ وہ کمزور طبع تھے‘ انتہائی ظلم نہیں تو اور کیا ہے! میں پھر یہی عرض کروں گا کہ ایسے لوگوں میں خود عقل نہیں یا وہ دوسرے سب لوگوں کو اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں کہ جو بات یہ کہہ دیں وہ باور کر لی جائے گی. اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی سی ساری کوشش کرنے بلکہ اپنی جان دے کر بھی فتنہ کو نہ روک سکے اور ان کی شجاعت‘ جرأت اور شیر خدا ہونے پر کوئی نقص واقع نہیں ہوتا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کیسے کمزور ہو گئے جبکہ انہوں نے بھی اپنا خون صرف فتنہ کو سر اٹھانے کا موقع نہ دینے کی وجہ سے دے دیا!

میرے نزدیک اس بات کی مسلمانوں میں خوب نشر واشاعت کی ضرورت ہے کہ ہمارے نزدیک میدانِ قتال میں کفار کے ہاتھوں شہید ہونے والوں میں پوری امت میں سب سے افضل حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں‘ جن کا اعضاء بریدہ اور مثلہ شدہ لاشہ اس حال میں رحمۃ للعالمین کی نگاہوں کے سامنے تھا کہ پیٹ چاک اور کلیجہ چبایا ہوا تھا. آپ رضی اللہ عنہ کو ترجمانِ وحیؐنے 
’’سیِّد الشُّہَدَاء‘‘ کا لقب دیا تھا.اُمت کی تاریخ میں دوسرا المناک سانحہ ایک مجوسی غلام کے ہاتھوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چراغِ حیات کا گل ہونا تھا. اسی طرح ایک نام نہاد کلمہ گو کے ہاتھوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی اُمت کے لیے ایک سانحہ ٔفاجعہ سے کم نہیں لیکن مظلومیت کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں سب سے زیادہ المناک‘ سب سے زیادہ دردناک اور سب سے زیادہ عظیم سانحہ ٔفاجعہ امامِ برحق‘ خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے.

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ان سب کے بعد آتی ہے. یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خونِ ناحق ہی تھا جس کی وجہ سے اللہ کا غضب آیا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں چوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں شہید ہوئے‘ خون کی ندیاں بہہ گئیں‘ فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی ‘ مسلمانوں میں ایسا تفرقہ پڑا کہ چودہ سو سال بھی اس کو پاٹ نہ سکے ‘بلکہ وہ ہر دور میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے. میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذمہ دار بھی دراصل وہی سازشی لوگ تھے جن کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ۱۸ذوالحجہ ۳۶ہجری کو امام مظلوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہیدکیے گئے‘ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر واویلا اور ماتم کرنے والے بھی درحقیقت اکثر وبیشتر وہی لوگ ہیں جن کے دامن خونِ عثمان‘ خونِ علی اور خونِ حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے داغدار ہیں.