روایات میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے چند یوم قبل حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ(جواسلام سے قبل ایک جید یہودی عالم تھے) نے محاصرین سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اجازت طلب کی.چونکہ اس بلوے میں اصل سازشی ذہن تو یہودیوں کا کام کر رہا تھا‘ لہذا بلوائیوں نے یہ گمان کیا کہ یہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی گستاخی کر کے آئیں گے‘ لہذا انہوں نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی.انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دیجیے ‘کیونکہ میں یہ دیکھ رہاہوں کہ یہ ظالم اب آپ کو شہید کیے بغیر نہ ٹلیں گے. میری تمنا ہے کہ میں بھی آپ کی مدافعت میں شہید ہو جاؤں ا س کے جواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ روایات میں محفوظ ہیں کہ: ’’میرا جو حق تم پر ہے‘ میں اس کا واسطہ دے کر تم سے کہتا ہوں کہ تم یہاں سے چلے جاؤ‘ میرے ساتھ نہ رہو‘‘. وہ حق کیا تھا؟

اس کی تفصیل موجود نہیں. ہو سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کبھی ان کے ساتھ کوئی حسن سلوک کیا ہو‘ اس کا واسطہ دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد امیر المومنین ہونے کی وجہ سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پر جو آپؓ کی اطاعت واجب تھی‘ اس کا واسطہ دیاہو بہرحال ناچار حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے. باہر بلوائی منتظرتھے کہ وہ آ کر ہمیں بتائیں گے کہ کس طرح وہ حضرت عثمانؓ کی دل آزاری کر کے آئے ہیں. حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سلام نے بلوائیوں کے سامنے کھڑے ہو کر خطبہ دیا کہ : ’’لوگو! بازآ جاؤ. امام وقت کے خون میں اپنے ہاتھ نہ رنگو. میں تم کو خبردار کرتا ہوں کہ کبھی اللہ کا کوئی نبی شہید نہیں کیا گیا‘ جس کی پاداش میں کم از کم ستر ہزار لوگ قتل نہیں ہوئے اور کبھی کسی نبی کا خلیفہ شہید نہیں کیا گیا اِلا آنکہ اس کی شہادت کے بعد کم از کم ۳۵ ہزار لوگ قتل نہیں ہوئے دیکھو! باز آ جاؤ‘ میں سچ کہتا ہوں کہ خون کی ندیاں بہہ جائیں گی‘‘.بلوائی کچھ اور توقع کر رہے تھے ‘ لیکن جب انہوں نے یہ بات سنی تو شور مچا دیا کہ ’’یہ یہودی جھوٹ کہتا ہے‘‘. انہوں نے پھر کہا: ’’خدا کی قسم‘ میں جھوٹ نہیں کہہ رہا‘ بلکہ میں جوکچھ کہہ رہا ہوں اللہ کی کتاب تورات کے حوالے سے کہہ رہا ہوں! اب بھی باز آجاؤ‘ ورنہ تمہاری اس حرکت سے جوفتنے کا دروازہ کھلے گا‘ اس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے.‘‘

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ایک روز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ ’’اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اس اُمت پر خلیفہ مقرر کرے اور منافق اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ کے پہنائے ہوئے اس کرتے کو اتار دو تو اس کو ہرگز نہ اتارنا‘‘ حضور نے تین بار تاکید فرمائی.چنانچہ عین شہادت کے دن جب بلوائیوں کی طرف سے اُشتر نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ آپ خلافت چھوڑ دیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ تم کو اختیار ہے جس کو چاہو خلیفہ بنا لو! ورنہ یہ لوگ آپ کو قتل کر ڈالیں گے‘ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’میں خلافت نہیں چھوڑ سکتا‘ رسول اللہ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ جس جامہ کو خدا مجھے پہنائے گا میں اس کو کبھی نہیں اتاروں گا‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ رسول اللہ نے مرض الموت میں ایک وقت صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تخلیہ میں بلا کر ان سے کچھ باتیں کیں.اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چہرہ متغیر ہوتا چلا گیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلہ نے بیان کیا کہ شہادت سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ میں صابر رہوں.