اس کامل الحیاء والایمان کے اِعطاء اور تقویٰ کی عین شہاد ت کے دن والی شان بھی دیکھئے. اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بیس غلام تھے‘ ان سب کو یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ میرا تو آخری وقت آ گیا ہے. آپ رضی اللہ عنہ نے ساری عمر کبھی شلوار نہیں پہنی تھی‘ لیکن جب معلوم ہو گیا کہ وقت آخر قریب ہے تو اس خیال سے کہ مبادا اس ہنگامے میں عریاں ہو جاؤں‘ شلوار منگائی اور پہنی.

روایت میں الفاظ آئے ہیں : ’’وَشَدَّھَا‘‘ کہ اس کو خوب کس کر باندھا‘ تاکہ شہید ہونے کے بعد ستر نہ کھلنے پائے اور اس موقع پر رسول اللہ کے فرمائے ہوئے الفاظ ’’وَاَکْثَرُھُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ‘‘ کو کہیں بٹہ نہ لگ جائے. شلوار پہنی اور پھر قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہو گئے. خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلا قطرہ سورۃ البقرۃ کے ان الفاظ پر گرا فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ (آیت ۱۳۷’’ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے‘‘

اس طرح وہ پیشینگوئی پوری ہوئی جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا ہے کہ : ’’میں نبی اکرم کے پاس بیٹھا تھا‘ اتنے میں عثمان رضی اللہ عنہ آ گئے. آپؐ نے فرمایا: اے عثمان! تم سورۃ البقرۃ پڑھتے ہوئے شہید کیے جاؤ گے اور تمہارے خون کا قطرہ آیت فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ پر گرے گا.تم پر اہل مشرق و مغرب یورش کریں گے اور ربیعہ و مضر (دو قبیلے) کے لوگوں کے برابر تمہاری شفاعت قبول ہو گی اور تم قیامت میں بے کسوں کے سردار بنا کر اٹھائے جاؤ گے.‘‘