صحیحین میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے (جب کہ ایک مرتبہ آپؐ باغ میں تھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہماتشریف لا چکے تھے تو) تیسری بار دروازے پر دستک سن کر مجھ سے فرمایا کہ عثمان کے لیے دروازہ کھول دو اور ان کو ایک بلوے میں صابر رہنے پر جنت کی خوشخبری سناؤ.‘‘

حضرت کعب بن عجزہ رضی اللہ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ : ’’ایک دن رسول اللہ نے فتنوں کا ذکر کیا اور ان کا قریب ہونا بیان کیا. اتنے میں ایک صاحب اپنا سر لپیٹے ہوئے نکلے جس سے ان کا منہ چھپا ہوا تھا. آپ نے فرمایا کہ یہ اُس دن حق پر ہو گا . میں نے لپک کر ان صاحب کے ہاتھ پکڑ لیے اور ان کا چہرہ کھول کر حضور کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا:’’یہی؟‘‘ آپؐنے جواب میں فرمایا: ’’ہاں یہی!‘‘ یہ صاحب حضرت 
عثمان رضی اللہ عنہ تھے‘‘. اس حدیث کو امام ترمذی نے بھی بیان کیا ہے.

’’استیعاب‘‘ میں روایت ہے کہ زرارہ بن نخعی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم سے اپنا خواب بیان کیا کہ ’’میں نے دیکھا کہ ایک آگ نکلی جو میرے اور میرے بیٹے کے درمیان حائل ہوگئی‘‘. حضور نے فرمایا کہ ’’آگ وہ فتنہ ہے جو میرے بعد ہو گا‘‘. لوگوں نے دریافت کیا: یارسول اللہؐ ! فتنہ کیسا؟ حضور نے فرمایا:’’آگ وہ فتنہ ہے جس میں لوگ اپنے امام کو قتل کر ڈالیں گے‘ جس کے بعد آپس میں خوب لڑیں گے‘ مسلمان کا خون مسلمان کے نزدیک پانی کی طرح خوشگوار ہو گا‘ برائی کرنے والا اپنے آپ کو نیک گمان کرے گا‘‘. 

آنحضور کے اس ارشاد میں ’’امام‘‘ سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں‘ کیونکہ ان کی شہادت کے بعد ہی مسلمانوں میں آپس میں خونریزی ہوئی.

ترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا اور اس موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’اس میں یہ مظلوم شہید ہوں گے‘‘. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا‘ آپؐ فرماتے تھے کہ ’’عنقریب فتنہ و اختلاف ہو گا‘‘. ہم نے کہا :آپ ہم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ’’ امین یعنی عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کا ساتھ اختیار کرنا‘‘.