ابوقلابہ سے مروی ہے کہ : میں نے شام کے بازار میں ایک آدمی کی آواز سنی جو ’’ آگ آگ‘‘ چیخ رہا تھا. میں قریب گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ٹخنوں سے کٹے ہوئے ہیں اور دونوں آنکھوں سے اندھا منہ کے بدل زمین پر پڑاگھسٹ رہا ہے اور ’’ آگ آگ‘‘ چیخ رہا ہے. میں نے اس سے حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ’’میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھسے تھے. جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ چیخنے لگیں‘ میں نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا. عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:تجھے کیا ہو گیا ہے‘ عورت پر ناحق ہاتھ اٹھاتا ہے. خدا تیرے ہاتھ پاؤں کاٹے‘ تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کرے اور تجھے آگ میں ڈالے! مجھے بہت خوف معلوم ہوااورمیں نکل بھاگا. اب میری یہ حالت ہے جو تم دیکھ رہے ہو‘ صرف آگ کی بددعا باقی رہ گئی ہے.‘‘

نافع ؒ سے مروی ہے کہ : ’’ایک بلوائی نے شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عصا لے کر اس کو اپنے گھٹنے سے توڑ ڈالا تھا‘ اس کی پوری ٹانگ گل گئی‘‘ یزید بن حبیب سے مروی ہے کہ : ’’جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر چڑھائی کر کے گئے تھے ان میں سے اکثر پاگل ہو کر مرے.‘‘

واقف ِاسرارِ نبویؐ یعنی حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ جب بلوائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف چلے تو لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ بلوائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف گئے ہیں‘ آپ کیا کہتے ہیں؟انہوں نے کہا: بخدا یہ لوگ ان کو شہید کر دیں گے. لوگوں نے پوچھا: شہید ہونے کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا: خدا کی قسم عثمان رضی اللہ عنہ جنت میں جائیں گے اور ان کے قاتلین کے لیے دوزخ ہے‘ جس سے ان کو کسی طور چھٹکارا نہیں ملے گا.‘‘