روایات میں آتا ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما(جن کو بلوائیوں نے اس وقت زخمی کر دیا تھا جب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو محاصرے کی حالت میں پانی پہنچانا چاہتے تھے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں خطبہ بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوئے.اس خطبے میں انہوں نے اپنا ایک خواب بیان کیا. اس خواب سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم اسباب میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی ایک تو ظاہری شکل ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت ہوتی ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’لوگو! میں نے کل رات ایک عجیب و غریب خواب دیکھا. میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت لگی ہوئی ہے. پروردگارِ کائنات اپنے عرش پر متمکن ہے. نبی اکرم تشریف لاتے ہیں اور عرش کا ایک پایہ پکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں. پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آتے ہیں اور حضور کے شانہ مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں. پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آتے ہیں اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں پھر اچانک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس حال میں اس عدالت میں آتے ہیں کہ ان کا کٹا ہوا سر ان کے ہاتھوں میں رکھا ہوتا ہے اور وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں فریاد کناں ہوتے ہیں کہ اے پروردگار! اپنے ان بندوں سے جو تیرے آخری نبی جناب محمد کے نام لیوا ہیں اور جو خود کو مسلمان کہتے ہیں‘ پوچھا تو جائے کہ مجھے کس گناہ کی پاداش میں قتل کیا گیا؟ میرا آخر کیا گناہ تھا‘ کون سا جرم تھا جس کے بدلے میں میرا سر کاٹا گیا؟‘‘

اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’عثمان رضی اللہ عنہ کی اس فریاد پر میں نے دیکھا کہ عرشِ الٰہی تھرایا اور آسمان سے خون کے دو پرنالے جاری کر دیے گئے جو زمین پر خون برسانے لگے.‘‘

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس بیان کے بعد لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے (جو اس خطبہ کے وقت موجود تھے) شکایتاً کہا کہ آپ نے سنا‘ حسن کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیونکہ یہ خواب تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومیت پر مہر تصدیق ثبت کر رہا تھا ‘ قاتلانِ عثمان رضی اللہ عنہ اسے کیسے گوارا کرتے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ ’’حسن وہی بیان کر رہے ہیں جو انہوں نے دیکھا ہے.‘‘

میں کہتا ہوں کہ خون کے یہ دو پرنالے درحقیقت جنگ جمل اور جنگ صفین کی صورت رواں ہوئے تھے. یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق پراللہ کے غضب کی دو نشانیاں تھیں جس کی خبر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پہلے دے چکے تھے کہ : ’’اللہ کا کوئی نبی شہید نہیں کیا گیا مگر اس کے بعد سترہزار لوگ قتل ہوئے اور کسی نبی کا کوئی خلیفہ شہید نہیں کیا گیامگر اس کے بعد پینتیس ہزار لوگ مقتول ہوئے‘‘. لیکن یہاں معاملہ چوراسی ہزار کا ہے جو ان دونوں ـجنگوں میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے. شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ علیہ نے عباسی خلیفہ مستعصم 
کے زوال اور المناک انجام پر کہا تھا کہ ؎ 

آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں
بر زوال ِملک مستعصم امیر المؤمنیں! 

یہاں مستعصم کی بجائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین کا نام رکھ لیجیے تو اس شعر میں آپ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خواب کی تعبیر نظر آجائے گی.

اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں نازل ہوں حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ پر.