ہجری سالِ نو مبارک

۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو جمعہ کا دن اور محرم الحرام ۱۴۰۲ھ کی یکم تاریخ تھی. اس روز مسجد دار السلام ‘باغ جناح ‘ لاہور میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اپنے خطابِ جمعہ میں جو موضوع گزشتہ دو ماہ سے چل رہا تھا یعنی ’’نظامِ سیاست و حکومت سے متعلق قرآنی تعلیمات‘‘ اُس پر گفتگو سے قبل نئے ھجری سال کے آغاز کی مناسبت سے جو کچھ فرمایا‘ وہ درج ذیل ہے. (مرتب) 

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ . اَمَّا بَعْدُ! 
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ … بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ : وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴
وَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِیْ سُوْرَۃِ آلِ عِمْرَانِ: وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ 
اَمَّا بَعْدُ : رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۸﴾ 
اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ
اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِط وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ… آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ! 
حضرات! آج یکم محرم الحرام سن ۱۴۰۲ ہجری ہے. گویا آج پندرہویں صدی کے دوسرے سال کا پہلا دن ہے. لہذا سب سے پہلے تو میں اسلامی تقویم کے اعتبار سے اس نئے سال کی آمد پر آپ کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ سال ہمارے لیے امن و امان اور سلامتی و اسلام کا سال ثابت ہو. یہی وجہ ہے کہ میں نے آغاز میں وہ دعا پڑھی ہے جو نبی کریم ہر ماہ کے لیے نئے چاند کے طلوع ہونے پر پڑھا کرتے تھے یعنی اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ جس کے آخر میں آنحضرت یہ بھی فرمایا کرتے تھے : ’’رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ . ھِلَالُ رُشْدٍ وَّخَیْرٍ‘‘ اس دعا کے تین حصّے ہیں. اصل دعاتو پہلا حصّہ ہے کہ ’’اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما‘‘. دوسرے حصّے میں چاند سے خطاب ہے. اس میں دراصل مشرکانہ اوہام اور عقائد کی نفی اور ابطال ہے جو چاند‘ سورج اور اجرامِ فلکیہ کے بارے میں بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں.

لہذا آنحضرت یہ فرمایا کرتے تھے : رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ یعنی ’’میرا رب بھی اللہ ہے اور اے چاند تیرا رب بھی اللہ ہے‘‘. تیسرا حصّہ ایک نوید اور خوشخبری بھی ہے اور اس میں ایک دعائیہ پہلو بھی ہے: ھِلَالُ رُشْدٍ وَّخَیْرٍ یعنی یہ ہلال جو طلوع ہوا ہے یہ رشد اور خیر کا ہلال ہے.یہاں ’’ہے‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے اور ’’ہو‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے. اگر اوّل الذکر ترجمہ کیا جائے تو یہ نوید وخوشخبری ہے اور اگر مؤخر الذکر ترجمہ کیا جائے تو یہ دعا ایک تمنا اور خواہش کا اظہار ہے کل جو ہلال طلوع ہوا ہے اس سے صرف ایک نیا مہینہ ہی شروع نہیں ہوا بلکہ نیا اسلامی و ہجری سال بھی شروع ہوا ہے. لہذا ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ !اس سال کو نوع انسانی کے حق میں بالعموم اور مسلمانانِ عالم کے حق میں بالخصوص اور اس خطۂ ارضی کے حق میں جو تو نے اسلام کے نام پر ہمیں عطا فرمایا تھا اور جو مملکت ِخداداد پاکستان کہلاتا ہے‘ خاص الخاص طریق پر اپنے فضل اور اپنی رحمت سے امن و سلامتی کا سال بنا اوراس سال میں ہمارے ایمان اور اسلام میں حقیقی رنگ پیدا فرما میں نے مزید یہ دعا بھی کی ہے کہ اس سال کے دوران تیرے علم کامل میں جن کی وفات کا وقت قریب آ رہا ہو‘ اے اللہ! ان کو ایمان پر وفات دیجیو اور جن کے لیے تیرے علمِ ازلی میں مزید مہلت عمر طے ہو ان کو اسلام پر قائم رکھیو اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ‘ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ. 

اس موقع پر ایک جملہ معترضہ کے طور پر مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ محرم الحرام کے مہینے کو ہم نے ایک مخصوص مکتب فکر کے زیر اثر بلاسبب اور قطعی نامناسب طور پر رنج و غم اور حزن و اَلم کا مہینہ بنا لیا ہے‘ حالانکہ کسی بھی اعتبار سے یہ مہینہ ہمارے لیے رنج و غم کا مہینہ نہیں ہے ‘بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سال کا کوئی مہینہ بھی دینی لحاظ سے رنج و غم کا مہینہ نہیں ہے. یوم عاشوراء (۱۰ محرم الحرام) کی جو اہمیت ہمارے ہاں ہے‘ اس میں ہمارے دینی تصورات و عقائد کے لحاظ سے عظمت کا پہلو ہے. اس ضمن میں بہت سی احادیثِ صحیحہ کتب احادیث میں موجود ہیں.

نبی اکرماس دن جو روزہ رکھتے تھے تو اس کی کوئی بنیاد اور تعلق حادثہ کربلا سے نہیں ہے. یہ حادثہ تو نبی اکرم کی الرفیق الاعلیٰ کی جانب مراجعت کے نصف صدی سے بھی زائد بعد پیش آیا ہے. لہٰذا دینی لحاظ سے اس حادثے کا یوم عاشوراء سے کسی تعلق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. صومِ عاشوراء کے متعلق جو متفق علیہ حدیث ملتی ہے یعنی سند کے اعتبار سے جس کی صحت پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ جیسے جلیل القدر محدثین اتفاق کر رہے ہوں اور جس کے راوی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ‘جو آنحضرت اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کے چچا زاد بھائی ہیں اور جو گویا حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے رشتے کے چچا بھی ہیں اور نانا بھی. وہ روایت کرتے ہیں کہ جب آنحضرت  مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے یہود ۱۰محرم الحرام کو روزہ رکھتے ہیں تو آپؐ نے یہود سے دریافت فرمایا کہ ’’تم یہ روزہ کیوںرکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’یہ دن ہمارے لیے بڑی خوشی کا دن ہے‘ اس لیے کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ اور بنی اسرائیل کو آلِ فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات دلائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو‘ جو تعاقب میں تھا ‘غرق کیا تھا‘ لہٰذا ہم شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھتےہیں‘‘.

اس پر آنحضور نے ارشاد فرمایا کہ ’’تمہاری نسبت (حضرت) موسٰی ؑ کے ہم زیادہ حق دار ہیں‘‘. یہود نے تو اس کو ایک قومی دن کا درجہ دے رکھا ہے‘ حالانکہ یہ دن دینِ اسلام کی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے اور دینِ اسلام کی تاریخ تو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوتی ہے. اسی موقع پر آنحضور نے فرمایا کہ ’’ہم اس دن کا روزہ رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘. چنانچہ اس وقت سے آنجنابنے دس محرم الحرام کا روزہ رکھنا شروع فرما دیا.

ویسے بھی اس بات کو اچھی طرح جان لیجئے کہ ہمارے دین میں ’’شہادت‘ ‘کا معاملہ کوئی رنج و غم والی بات ہے ہی نہیں ‘بلکہ یہ تو ایک مردِ مومن کے لیے فوز و مرام اور فلاح و کامرانی کا بلند ترین اور ارفع و اعلیٰ مقام ہے. دلیل کے لیے سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۵۴:

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾ 
یعنی ’’جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردہ نہ کہو‘ بلکہ یہ لوگ (تو حقیقت میں) زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور حاصل نہیں.‘‘ اور سورۂ آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ 
یعنی ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں. اپنے ربّ کے پاس سے روزی پا رہے ہیں‘‘کو پیش نظر رکھئے . ان مقتولین کی برزخی زندگی میں حیات اور اس میں رزق پانے کی کیفیات امورِ غیب سے متعلق ہیں لہٰذا اس کا کوئی تصور و شعور اس عالمِ ناسوت میں ہمارے لیے ممکن نہیں.

شہادت فی سبیل اللہ وہ سعادتِ عظمیٰ اور چوٹی کا وہ عمل ہے کہ جس کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام تمنا کیا کرتے تھے. چنانچہ صحیح احادیث میں آنحضرت کی دو دعائیں منقول ہیں .ایک یہ کہ :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسَئَلُکَ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 
اور دوسری یہ کہ: اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ
مزید برآں آنحضور کا یہ قول بھی احادیث میں منقول ہے :
لَوَدِدْتُ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ (متفق علیہ)
’’میرے دل میں بڑی آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جائوں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں‘‘.

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ رسول قتل نہیں ہوتے ‘ اس لیے کہ اس طرح عالم ظاہری میں رسول کی مغلوبیت کا پہلو نکلتا ہے‘ لیکن اس حدیث سے مرتبۂ شہادت کے رفیع و مہتم بالشان ہونے کا اندازہ لگا لیجئے علاوہ ازیں نبی اکرم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملاحظہ کیجئے :

مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ (مسلم و ابوداوٗد) 
’’جس مسلمان کی موت اس حال میں آئی کہ نہ اس نے کبھی اللہ کی راہ میں جنگ کی اور نہ ہی اس کے دل میں راہ حق میں سر کٹا کر سرخرو ہونے کی تمنا و آرزو پیدا ہوئی ‘ اس کی موت ایک قسم کے نفاق پر واقع ہوئی‘‘ .
پس شہادت ہرگز رنج و الم ‘سوگ اور ماتم کرنے والی چیز نہیں ہے.

اگر شہادت رنج و غم اور الم و ماتم والی شے ہوتی تو دورِ نبویؐ اور دورِ خلافت ِ راشدہ کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس میں کوئی نہ کوئی عظیم شہادت وقوع پذیر نہ ہوئی ہو. اگر شہادت میں رنج و غم اور ماتم کا پہلو تلاش کریں تو حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شہادت کا دن بھی ماتم کے دن کے طور پر منانا ہو گا. یہ بڑی عظیم شہادت ہے.توحید کے لیے یہ پہلا خون بہا ہے جس سے مکہ مکرمہ کی زمین لالہ زار ہوئی اور کس بہیمانہ طریقے پر کہ ابوجہل نے تاک کر اندام نہانی پر نیزہ مارا ہے جو پشت کے پار ہو گیا.

پھر ان کے شوہر حضرت یاسر ؓ کی عظیم شہادت ہے جس کے متعلق بعضروایات میں آتا ہے کہ ابوجہل اور اس کے شقی القلب ساتھیوں نے حضرت یاسرؓ کے دونوں ہاتھ اوردونوں پیر رسیوں سے باندھے ‘پھر چہار سمت میں چار اونٹ کھڑے کر کے یہ رسیاں اونٹوں کی ٹانگوں سے باندھ کر ان کو ہانک دیا گیا اور حضرت یاسرؓ کے جسم کے پرخچے اڑ گئے. یہ شوہر اور بیوی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے کے جرم میں اس ظالمانہ طو رپر شہید کئے گئے. ان کی مظلومانہ شہادت کے واقعات ایک حساس دل کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں. اگر ہمیں سوگ اور ماتم کا دن منانا ہوتا تو ان کا مناتے! اگر نبی اکرم سے قرابت کی بنیاد پر شہادت کا دن نوحہ و گریہ اور ماتم کا کوئی پہلو رکھتا تو حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کا دن اس کا کہیں زیادہ مستحق ہو گا کہ اسے سوگ کا دن منایا جائے جن کے آنحضرت کے ساتھ قرابت داری کے تیہرے بلکہ چوہرے رشتے ہیں.

چنانچہ چچا بھتیجے کا رشتہ بھی ہے‘ خالہ زاد بھائی بھی ہیں اور رضاعی بھائی بھی ہیں. عرب میں رضاعت کا رشتہ بالکل خونی رشتے کے برابر سمجھا جاتا تھا. چنانچہ سب جانتے ہیں کہ اسلام میں نکاح کی حرمت جس طرح رحم اور خون کے رشتوں کی بنیاد پر ہے اسی طرح رضاعت کی بنیاد پر بھی ہے. پھر ساتھ کے کھیلے ہوئے ہم جولی ہیں. مزید اضافہ کیجئے کہ نبی اکرم کے فرمانِ مبارک کے مطابق ’’اَسَدُ اللّٰہِ ‘‘ بھی ہیں اور ’’اَسَدُ رَسُوْلِہٖ‘‘ بھی ہیں. پھر نعش مبارک کا حال یہ ہے کہ اعضاء بریدہ (مثلہ شدہ) ہیں‘ شکم چاک ہے‘ کلیجہ نکال کر چبانے کی کوشش کی گئی ہے. اب اگر ہر سال سوگ کا دن منایا جاتا اور ماتم کیا جاتا تو ان کی شہادت پر کیا جاتا. پھر دیکھئے کہ حضرت زید بن حارثہؓ ‘ حضرت جعفر طیاربن ابی طالبؓ ‘ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ ‘ حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور بے شمار دوسرے جاں نثارانِ محمد دور ِنبو ت میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ہیں. سوگ کا دن منایا جاتا تو ان کا منایا جاتا .لیکن رنج و غم کی بات کون سی ہے!! اسلام کی تاریخ کا کون سا دور ہے جو ان شہادتوں اور قربانیوں سے خالی ہو؟ اسلام کے گلشن میں ہر چہار طرف یہ پھول کھلے ہوئے ہیں. 

پھر غو ر فرمایئے کہ اسلامی تقویم کا جو پہلا دن ہر سال آتا ہے ‘ یعنی یکم محرم الحرام تو 
یہ ایک عظیم شہادت کا دن ہے‘ یعنی دوسرے خلیفہ راشد امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کا دن یکم محرم الحرام ہے. وہ عمرؓ جن کے متعلق آنحضور کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے‘‘. اگر رنج و غم کے اظہار کا مسئلہ ہوتا اور اگر سوگ کا دن منانے کا معاملہ ہوتا تو آج کے دن یعنی یکم محرم الحرام ہوتا. حضرت عمر ؓ پر قاتلانہ حملہ ۲۸ذی الحجہ کو ہوا تھا جس میں آنجناب مجروح ہوئے تھے اور معتبر روایات کے مطابق ان کی وفات یکم محرم الحرام کو ہوئی تھی. پھر۱۸ذی الحجہ کو تیسرے خلیفہ ٔ‘راشد ذوالنورین حضرت عثمان غنی ؓ تقریباً پچاس دن کے محاصرے کے بعد انتہائی مظلومانہ طور پر شہید کئے گئے جن کی شہادت کے نتیجے میں مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوئے اور اُمت میں ایسا تفرقہ پڑا کہ آج تک ختم نہیں ہوا.

سوگ کا دن منانا ہوتا تو اس ’’شہید ِمظلوم‘‘ کی شہادت کے دن کو منایا جاتا. پھر ۲۱؍ رمضان المبارک کو اسد اللہ حضرت علی ؓ ‘ حضور کے چچیرے بھائی ‘ آپؐ کے داماد‘ چوتھے خلیفہ راشد شہید کر دیئے گئے جو حضراتِ حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد ماجد بھی ہیں. سوگ کا دن منانا ہوتا تو ایک مخصوص مکتب ِفکر کے افراد کے بجائے پوری امت آنجناب کی شہادت کے دن سوگ مناتی. اگر سوگ کے دن منانے کا سلسلہ جاری رہے تو بتایئے کون کون سے دن سوگ منایا جائے گا؟ سال کا کون سا دن ہو گا جو کسی نہ کسی عظیم شخصیت اور اولیاء اللہ کی شہادت یا وفات کا دن نہ ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین میں سوگ اور ماتم اور ان کے دن منانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.

جس گھر میں کسی کی وفات ہوئی ہو تو سوگ کی کیفیت کی زیادہ سے زیادہ تین دن کے لیے اجازت ہے. اس میں بھی نوحہ‘ گریہ اور سینہ کوبی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے. باقی رہا یہ کہ ان میں سے جنہوں نے بھی اللہ کی راہ میں قربانیاں دی ہیں اور حق و صداقت کے لیے اپنی جانیں دی ہیں‘ اس کی بنیاد پر ان کا بہت ارفع و اعلیٰ مقام ہے. لیکن نہ تو دن اور یادگار منانا ہمارے دین کے مطابق ہے ‘ نہ ہی یہ کوئی رنج و غم اور الم و حزن کا معاملہ ہے اور نہ ہر سال سوگ اور ماتم کرنا دین سے کوئی مناسبت رکھتا ہے. شاید آپ کو معلوم ہو کہ ہمارے یہاں صوفیاء کے نزدیک موت کو ایک محبوب اور محب کی ملاقات کا وقت تصور کیا جاتا ہے. چنانچہ یہ جو لفظ ’’عرس‘‘ رائج ہے تو اس کے معنی شادی کے ہیں. جیسے عرس (شادی) ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے ویسے ہی موت کسی مردِ مؤمن کے لیے کسی رنج و غم کا موقع ہے ہی نہیں‘ چاہے وہ طبعی ہو چاہے قتل کی صورت میں ہو. یہ تو درحقیقت ایک محبوب اور محب کی ملاقات ہے .اس پہلو سے علامہ اقبال کا وہ شعر ذہن میں رکھئے کہ ؎ 

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست! 

تو تبسم خوشی کے موقع پر ہوتا ہے نہ کہ غمی کے موقع پر. پس یہ سوگ اور ماتم کے دن منانا قطعاً ہمارے دین کے ساتھ مناسبت رکھنے والی چیز نہیں ہے.

اس سلسلہ میں ہمارے معاشرے میں یہ غلط رواج چلا آ رہا ہے کہ محرم الحرام‘ بالخصوص اس کے پہلے عشرے میں شادیاں نہیں ہوتیں. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے آخری عشرے میں شادیوں کا ایک طوفان آ جاتا ہے. آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا کہ امسال ذی الحجہ کے آخری دنوں میں لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں شادیاں انجام پائی ہیں. آخر ہم نے محرم الحرام ‘بالخصوص اس کے پہلے عشرے ‘کو شادی بیاہ کی تقریب کے لیے حرام یا منحوس کیوں سمجھ لیا ہے!!