کربلا کی کہانی (حضرت ابوجعفر محمد باقر ؒ کی زبانی)

ترجمہ:مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی
(ماخوذ از ہفت روزہ’’اسلام‘‘ لاہور)

روایت کے راوی عمار د ہنی نے کہا کہ میں نے محمد بن علی بن الحسینؓ سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعۂ قتلِ حسینؓ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا میں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہو رہا ہے. اس پر حضرت محمد باقر ؒ نے فرمایا : امیر معاویہ ؓ کے انتقال کے وقت حضرت معاویہؓ کا بھتیجا ‘یزید کا چچیرا بھائی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان مدینہ منورہ کا گورنر تھا. ولید نے حسب ِ دستور حضرت حسین ؓ ‘کو پیغام بھیجا تاکہ ان سے نئے امیر یزید کے لیے بیعت لیں. حضرت حسینؓ نے جواب میں فرمایا کہ سرِدست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں. ولید نے ان کو مہلت دے دی. حضرت حسین ؓ مہلت پا کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے.

دریں اثناء جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا کہ حضرتؓ ‘ تو مکہ شریف پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے اپنے قاصد حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں روانہ کئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں‘ ہم اب آپ ہی کے ہو گئے ہیں. ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں. ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے. اس وقت حضرت نعمان بن بشیر انصاریؓ یزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے. جب اہل کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو حضرت حسینؓ نے اپنے چچیرے بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ ‘ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تا کہ وہ وہاں جا کر صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لیں. اگر اہل کوفہ کے بیانات صحیح ہوئے تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے.