قرارداد کے مطابق حضرت مسلمؓ مکہ شریف سے مدینہ منورہ پہنچے ‘وہاں سے راستہ کی راہنمائی کے لیے دو آدمی ساتھ لیے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے. جس راستہ سے وہ لے گئے ‘اس میں ایک ایسا لق و دق میدان آ گیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے سخت دوچار ہو گئے. چنانچہ اسی جگہ ایک رہنما انتقال کر گیا. اس صورتِ حال کے پیش آنے پر حضرت مسلمؓ نے حضرت حسینؓ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوح ؓ نے معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ آپ ضرور کوفہ جائیں. بنابریں حضرت مسلم ؓ کوفہ کی طرف چل دیئے. وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا. جب اہل کوفہ میں حضرت مسلمؓ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں آئے اور ان کے ہاتھ پر حضرت حسینؓ کے لیے بیعت کرنے لگے.

چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کر لی. دریں اثنا یزید کے ایک کارندہ عبداللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کارروائی کی اطلاع گورنر ِکوفہ نعمان بن بشیر کو دے دی اور ساتھ ہی کہا کہ یا تو آپ واقعتا کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھا ہے‘ دیکھتے نہیں کہ شہر کی صورتِ حال مخدوش ہو رہی ہے! اس پر حضرت نعمان نے فرمایا کہ میری ایسی کمزوری جو بربنائے اطاعتِ الٰہی ہو وہ مجھے اس قوت و طاقت سے زیادہ پسند ہے جو اس کی معصیت میں ہو‘ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس امر پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالے رکھا ہے خواہ مخواہ اس پردہ کو فاش کروں. اس پر عبداللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کربھیج دیا. یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون نامی سے اس بارے میں مشورہ لیا. اس نے کہا ’’اگر آپ کے والد زندہ ہوتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اسے قبول کرتے؟‘‘ یزید نے کہا ضرور!سرحون نے کہا ‘تو پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبیداللہ بن زیاد کے سپرد کردیں. ادھر صورتِ حال ایسی تھی کہ ان دنوں یزید عبیداللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اسے معزول کرنا چاہتا تھا .مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہارِ پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری پر بھی عبیداللہ بن زیاد کو نامز دکر دیا اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل کو تلاش کرو ‘اگر مل جائے تو اس کو قتل کر دو.