اس حکم کی بنا پر عبیداللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تا کہ اسے کوئی پہچان نہ سکے .وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا ‘ اس پر سلام کرتا اور وہ حضرت حسینؓ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللّٰہ ’’اے رسول اللہ ‘ کے بیٹے‘ !آ پ پر بھی سلام‘‘ سے جواب دیتے. اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصرِ امارت پہنچ گیا. وہاں پہنچ کر اس نے ایک غلام کو تین ہزار درہم دیئے اور کہا کہ تم جا کر اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے. لیکن دیکھو تم خود کو ’’حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صَرف کریں. چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اس کی رسائی ہو گئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا. اور اس نے اپنے آنے اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی. اس نے کہا کہ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کر کے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ ہماری اسکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی. تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ہاں لے گیا. حضرت مسلمؓ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی. اب وہ یہاں سے نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا.

ادھر عبیداللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد حضرت مسلم عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش تھے اور حضرت حسینؓ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ لوگوں نے بارہ ہزار کی تعداد میں ہماری بیعت کر لی ہے‘ آپ کوفہ تشریف لے آئیں. اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبیداللہ کو پتہ چل گیا کہ حضرت مسلمؓ ہانی کے مکان پر ہیں تو اس نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے! اس پرحاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعب چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے. ابن اشعب نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں‘ لہذا آپ کو چلنا چاہئے. چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہو لیے اور وہ عبیداللہ کے پاس پہنچے .اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے. ان سے مخاطب ہو کر اس نے کہا ‘دیکھو اس ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے. پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا تو کہا ’’ہانی! مسلم بن عقیل کہاں ہیں؟‘‘ اس نے کہا ‘مجھے علم نہیں. اس پر عبیداللہ نے تین ہزار درہم دینے والے غلام کو اس کے سامنے کر دیا. ہانی بالکل لاجواب ہو گئے‘ البتہ اتنا کہا کہ میں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں بلکہ وہ خود میرے گھر آ کر ٹھہر گئے ہیں. ابن زیاد نے کہا ‘اچھا ان کو حاضر کرو. اس نے اس پر پس و پیش کیا تو ابن زیاد نے ان کو اپنے قریب بلوا کر اس زور سے چھڑی ماری جس سے اس کی بھویں پھٹ گئیں. اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبیداللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا. اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر کہ اب تمہارا خون حلال ہے‘ قصرِ امارت کے ایک حصّے میں اس کو قید میں ڈال دیا.

اس واقعہ کی اطلاع ہانی کے قبیلہ مذحج کو ہوئی تو اس نے قصر امارت پر یلغار بول دی. عبیداللہ نے شور سنا اور پوچھا تو کہا گیا کہ ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑانے کے لیے آیا ہے. اس نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے‘ خطرے کی کوئی بات نہیں. لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا‘ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں! قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا‘ ابن زیاد میرے قتل کے 
درپے ہے.تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کر دیا‘ اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے.

حضرت مسلم کو جب ہنگامہ کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کر ا دیا‘ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے. ان کو باقاعدہ انہوں نے ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش ‘میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا. خود حضرت مسلم بن عقیلؓ اس کے قلب میں ہو گئے. اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکرِ جرار قصر امارت کی طرف روانہ ہو گیا. عبیداللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اہالیانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا. جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے پانے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کر کے سمجھانا شروع کیا. اب تو حضرت مسلم کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے‘ حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی چل دیئے. جب حضرت مسلمؓ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑے. راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی.

آپ نے اس کو پانی پلانے کے لیے کہا تو اس نے پانی تو پلا دیا لیکن اندر واپس چلی گئی. تھوڑی دیر بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کہا ‘اے اللہ کے بندے! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے ‘یہاں سے چلے جائیں. آپ نے کہا :میں مسلم بن عقیل ہوں‘ کیا تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا ‘ہاں آجائیے. آپ اندر چلے گئے. لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کے لڑکے نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبیداللہ تک خبر پہنچائی. اس نے اس کے ہمراہ پولیس کو روانہ کر دیا اور ان کو حضرت مسلم کی گرفتاری کا حکم دے دیا. پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا جب کہ حضرت مسلم کو خبر تک نہ ہو سکی تھی. اب خود کو انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس کے مقابلے کی ٹھان لی. لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کر کہا کہ میں ذمہ دار ہوں‘ آپ محفوظ رہیں گے. پس وہ حضرت مسلم کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے. چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے انہیں قصرِامارت کی چھت پر لے جا کر قتل کر دیا. (اِنا للہ واِنا اِلیہ راجعون) اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی. نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جا کر سولی دے دی گئی ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہو گیا تھا اور …