حضرت حسین ؓ کی کوفہ روانگی


اُدھر حضرت مسلم چونکہ خط لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کر لی ہے‘ حضرت حسینؓ جلد از جلد تشریف لے آئیں اس لیے حضرت حسینؓ مکہ شریف سے کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے. تاآنکہ آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حُر بن یزیدتمیمی حضرت حسینؓ کے قافلہ کو ملا. اس نے کہا کہاں تشریف لے جا رہے ہو. آپ نے فرمایا کوفہ. اس نے کہا کہ وہاں تو کسی خیر کی توقع نہیں‘ آپ کو یہاں سے ہی واپس ہو جانا چاہئے. پھر کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری روداد آپ کو سنائی.

سارا قصہ سن کر حضرت حسینؓ نے تو واپ
سی کا ارادہ کر لیا لیکن حضرت مسلم کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کر دیا کہ ہم خونِ مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود مارے جائیں گے. اس پر حضرت حسینؓ نے فرمایا ‘تمہارے بغیر میں جی کر کیا کروں گا. اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہو ئے . جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے ’’کربلا‘‘ کا رُخ کر لیااوروہاں جا کر ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جا سکتی تھی. چنانچہ خیمے نصب کر لیے. اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے.

دریں اثناء عبیداللہ نے عمرو بن سعد کو جو کوفہ کا گورنر تھا ‘بلایا اور اس سے کہا کہ اس شخص کے معاملے میں میری مدد کریں .اس نے کہا ‘مجھے تو معاف ہی رکھئے. ابن زیاد نہ مانا. اس پر عمرو بن سعد نے کہا ’’پھر ایک شب سوچنے کی مہلت تو دے دیجئے.‘‘ اس نے کہا ‘ٹھیک ہے‘ سوچ لو. ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد آمادگی کی اطلاع دے دی. 
اب عمرو بن سعد حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا . حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دیکھو تین باتوں میں سے ایک بات منظور کر لو :(۱) یا مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو‘ (۲) یا مجھے موقعہ دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں (۳) اور یا پھر یہ کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں.

ابن سعد نے یہ تجویز خود منظور کر کے ابن زیاد کو بھیج دی. اس نے لکھا ‘ہمیں یہ منظور نہیں ہے ‘(بس ایک ہی بات ہے کہ ) حسینؓ (یزید کے لیے) میری بیعت کریں. ابن سعد نے یہی بات حضرت حسین ؓ تک پہنچا دی. انہوں نے فرمایا ‘ایسا نہیں ہو سکتا . اس پر آپس میں لڑائی چھڑ گئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہو گئے‘ جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے. اسی اثناء میں ایک تیر آیا جو حضرت کے ایک چھوٹے بچے کو لگا جو گود میں تھا. آپ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے ’’اے اللہ! ہمارے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے. پھر اب وہی ہمیں قتل کر رہے ہیں‘‘. اس کے بعد خود تلوار ہاتھ میں لی‘ مردانہ وار مقابلہ کیااور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے! رضی اللہ عنہ. اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حضرت حسین ؓ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا‘اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی تاریخوں میں مذکور ہیں.

مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصرِ امار ت پر چڑھائی کر دی تھی. یہ شخص حضرت کا سرتن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے گیا. اس نے ایک شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کے پاس بھیج دیا‘ جہاں جا کر یزیدکے سامنے رکھ دیا گیا. ادھر ابن سعد بھی حضرت کے گھردار کولے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا . ان کا صرف ایک لڑکا بچا رہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن الحسینؓ زین العابدین تھے‘ جو روایت کے راوی ابوجعفر الباقر کے والد تھے. یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمار تھے . ابن زیاد نے حکم دیا‘ اس بچے کو بھی قتل کر دیا جائے. اس پر ان کی پھوپھی حضرت زینبؓ بنت علیؓ اس کے اوپر گر پڑیں اور فرمایا کہ جب تک مَیں قتل نہ ہو جاؤں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی. اس 
صورتِ حال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعد میں اسیرانِ جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا.

جب حضرت حسینؓ کے یہ بچے کھچے افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسب ِ دستور یزید کو تہنیت فتح پیش کی. ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا’’ امیر المؤمنین! یہ مجھے دے دیجئے‘‘. یہ سن کر حضرت زینبؓ بنت علیؓ نے کہا ’’بخدا! یہ نہیں ہو سکتا‘ بجز اس صورت کے کہ یزید دینِ الٰہی سے نکل جائے‘‘. پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اُسے ڈانٹ دیا.

اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا. پھر ان کو تیار کرا کے مدینہ روانہ کروا دیا. جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو خاندانِ عبدالمطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ہوئی ان سے ملنے کے لیے آئی اوراس کی زبان پر یہ اشعار تھے ؎ 

ماذا تقولون ان قال النبی لکم

ماذا فعلتم وانتم اخر الامم
بعترتی وباہلی بعد مفتقدی

منہم اسارٰی وقتلی ضرجوابدم
ماکان ھذا جزائی اذ نصحت لکم

ان تخلفو فی بشر فی ذوی رحمی

(اس روایت کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں نقل کیا ہے)