جب حضرت حسینؓ کے یہ بچے کھچے افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسب ِ دستور یزید کو تہنیت فتح پیش کی. ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا’’ امیر المؤمنین! یہ مجھے دے دیجئے‘‘. یہ سن کر حضرت زینبؓ بنت علیؓ نے کہا ’’بخدا! یہ نہیں ہو سکتا‘ بجز اس صورت کے کہ یزید دینِ الٰہی سے نکل جائے‘‘. پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اُسے ڈانٹ دیا.
اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا. پھر ان کو تیار کرا کے مدینہ روانہ کروا دیا. جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو خاندانِ عبدالمطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ہوئی ان سے ملنے کے لیے آئی اوراس کی زبان پر یہ اشعار تھے ؎
ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم اخر الامم
بعترتی وباہلی بعد مفتقدی
منہم اسارٰی وقتلی ضرجوابدم
ماکان ھذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفو فی بشر فی ذوی رحمی
(اس روایت کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں نقل کیا ہے)