(i) پہلی منزل: قریباً یکساں ذمہ داریاں

کوئی بھی مرد یا عورت جو کسی اسلامی تحریک سے وابستہ ہے‘ اسے ان باتوں سے کماحقہ واقف ہونا چاہیے. البتہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے مرد اور عورت میں جو فرق و تفاوت ہے وہ میں بیان کیے دیتا ہوں. دینی فرائض کے جامع تصور کی جو عمارت ہمارے پیش نظر ہے اس کی پہلی منزل بنیاد کے علاوہ چار ستونوں اور پہلی چھت پر مشتمل ہے. بنیاد اگرچہ عمارت شمار نہیں ہوتی‘ لیکن اہمیت کے اعتبار سے وہ سب سے بڑھ کر ہے. اس پہلی منزل کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سطح پر عورتوں اور مردوں کے فرائض یکساں ہیں‘ اگر کوئی فرق ہے تو وہ بہت ہی معمولی ہے. ایمان ہر مرد و عورت کی نجات کے لیے لازم ہے. سورۃ العصر اور سورۃ التین میں اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے الفاظ عمومی نوعیت کے ہیں اور ان میں مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں.

سورۃ النساء کی آیت۱۲۴ میں صراحت کے ساتھ فرما دیا گیا کہ جو کوئی بھی عمل صالح کی روش اختیار کرے‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ اور وہ مومن بھی ہو‘ تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے! گویا ایمان ہر مسلمان مرد و عورت کا فرضِ اوّلین ہے. اس کے بعد نماز ہرمرد و عورت پر فرض ہے. اسی طرح روزہ بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے. زکوٰۃ کی ادائیگی جس طرح صاحب نصاب مردوں پر فرض ہے اسی طرح صاحب نصاب عورتوں پر بھی فرض ہے. حج کے لیے زادِ راہ میسر ہو تو یہ بھی مسلمان مرد و عورت دونوں پر فرض ہے‘ البتہ اس کے لیے عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے. پھر یہ کہ اللہ کے تمام احکامات اور اس کی طرف سے عائدکردہ حلال و حرام کی پابندیاں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہیں. الغرض اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اوربنیادی فرائض کی ادائیگی دونوں کے ذمہ ہے. یہ تمام چیزیں دونوں میں مشترک ہیں.

اس ضمن میں مرد و عورت کے فرائض میں جو معمولی سا فرق ہے‘ اس کے لیے میں آپ کے سامنے نماز کی مثال رکھ رہا ہوں. مردوں کے لیے حکم ہے کہ وہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کریں‘ اِلاّ یہ کہ کوئی عذر ہو‘ جبکہ خواتین کا معاملہ اس کے برعکس ہے. ان کے لیے فرمایا گیا ہے کہ عورت کی نماز مسجد کے مقابلے میں اپنے گھر میں افضل ہے. گھر میں بھی صحن کے مقابلے میں دالان میں‘ اور دالان کے مقابلے میں کسی کمرے کے اندر افضل ہے‘ اور کمرے کے اندر بھی اگر کوئی کوٹھڑی ہے (جیسا کہ پہلے زمانے میں بنائی جاتی تھیں) تو اس میں نماز ادا کرنا افضل ترین ہے. البتہ جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں استثناء رہا ہے. اس لیے کہ اُس زمانے میں تعلیم و تلقین کے اور ذرائع نہیں تھے‘ نہ کتابیں اور رسالے تھے‘ نہ ہی کیسٹس تھیں. لہذا عیدین اور جمعہ کی نمازوں کے ساتھ جو خطبہ ہے وہی تعلیم کا واحد ذریعہ تھا. چنانچہ حضور نے خواتین کو ان خطبات میں شرکت کی ترغیب دی کہ وہ ضرور شرکت کریں‘ تاکہ وہ تعلیم و تلقین سے محروم نہ رہ جائیں. دَورِ نبویؐ میں خواتین کو نماز کے لیے اگرچہ مسجد میں آنے کی بھی اجازت تھی‘ تاہم انہیں ترغیب یہی دی گئی کہ اپنے گھروں میں نماز کی ادائیگی ان کے لیے افضل ہے اور گھر کے مخفی ترین حصہ میں نماز کا اجر و ثواب مزید بڑھ جائے گا.

بہرحال اس پہلی منزل تک مسلمان مرد و عورت کے فرائض میں کوئی بڑا فرق قطعاً نہیں ہے اور ان ذمہ داریوں میں مسلمان مرد و عورت دونوں یکساں ہیں. اس ضمن میں سورۃ الاحزاب کی تین آیات ملاحظہ ہوں. ان آیات میں ازواجِ مطہرات سے خطاب فرمایا گیا ہے. پہلی آیت کا تعلق ایمان کی تحصیل سے ہے‘ جو مرد و عورت دونوں کا اوّلین فرض ہے. حقیقی یا شعوری ایمان کا منبع و سرچشمہ صرف اور صرف قرآن حکیم ہے. اس کے پڑھنے پڑھانے‘ سیکھنے سکھانے‘ اس پر غورو تدبر اور اس کی تلاوت سے انسان کے اندر ایمان پیدا ہوتا ہے. چنانچہ پہلی آیت میں فرمایا گیا:

وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا ﴿٪۳۴
’’اور ذکر کرتی رہا کرو اُن چیزوں کا جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت میں سے تلاوت کی جا رہی ہوں. یقینا اللہ تعالیٰ بہت ہی باریک بین اور باخبرہے.‘‘

یہ آنحضور کی ازواجِ مطہرات ؓ سے خطاب ہے‘ جن کے گھروں میں وحی نازل ہوتی تھی اور حضورؐ وہاں قرآن حکیم کی آیات پڑھ کر سناتے تھے اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے. حکمت کا سب سے بڑا خزانہ بھی خود قرآن حکیم ہے. مزیدبرآں آپؐ احادیث کی صورت میں قرآن حکیم کی وضاحت فرماتے تھے ‘تو احادیث ِ نبویہ بھی دراصل حکمت کے عظیم موتی ہیں. گویا ان آیات میں سب سے پہلا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ قرآن و حدیث کا تذکرہ‘ مذاکرہ‘ ان کی درس و تدریس‘ ان کا پڑھنا پڑھانا اور سیکھنا سکھانا ہے. اس لیے کہ ایمان کا دارومدار اسی پر ہے‘ اسی سے یقین کی دولت ملے گی‘ اسی سے ہمارے ایمان میں گیرائی اور گہرائی پیدا ہو گی اور اسی سے ایمان میں استحکام اور پختگی پیدا ہوگی. لہذا یہ پہلا کام ہے جو ہر عورت کو کرنا ہے اور ہر ایک کو اسے اپنی اوّلین ذمہ داری سمجھنا چاہیے. ہم اگر اس کی فکر نہیں کریں گے اور دعوت و تبلیغ میں لگ جائیں گے تو یہ بھی درحقیقت ترتیب کے اعتبار سے بات غلط ہو جائے گی. ترتیب کے اعتبار سے ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنا پہلا فرض یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے اپنے ایمان کو مستحکم کرنا ہے‘ اس میں زیادہ سے زیادہ گہرائی پیدا کرنی ہے اور زیادہ سے زیادہ شعور کا عنصر شامل کرنا ہے. مرد یا عورت ہونے کے اعتبار سے اس میں کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے.
اب اگلی آیت کی طرف آیئے. وہ صفات جو اسلام مسلمان مرد و عورت سے طلب کرتا ہے انہیں قرآن مجید میں عام طور پر مذکر کے صیغوں میں بیان کر دیا جاتا ہے‘ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ برسبیل تغلیب ایک بات جب مردوں کے بارے میں بیان کر دی جائے تو عورتوں کے بارے میں وہ ازخود بیان ہو جاتی ہے. لیکن اس مقام پر ایک ایک لفظ کو خاص طور پر دُہرا دُہرا کر مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ لایا گیا‘ تاکہ واضح ہو جائے کہ ان اوصاف اور خصوصیات کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے. ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵
’’یقینا مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘ مومن مرد اور مومن عورتیں‘ فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں‘ راست بازو راست گو مرد اور راست بازو راست گو عورتیں‘ صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں‘ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں‘ روزہ رکھنے والے مرد او روزہ رکھنے والی عورتیں‘ اپنی شرمگاہوں (اور عفت و عصمت) کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر ِعظیم مہیا کر رکھا ہے.‘‘

اس آیت ِ مبارکہ میں دس صفات مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دہرا کر بیان کی گئی ہیں‘ جو درج ذیل ہیں:

(۱) المُسلِمِین والمُسلِمٰت: ’’مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘‘. یعنی اللہ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے مرد اور عورتیں.
(۲) المُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰت: ’’اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں‘‘. یعنی اللہ‘ اُس کے فرشتوں‘ اس کی نازل کردہ کتابوں‘ اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور آخرت پر ایمان رکھنے والے مرد اور عورتیں.
(۳) القٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰت: ’’فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں‘‘. جب کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے دست بستہ جھک کر کھڑا ہوتا تھا کہ جیسے ہی کوئی حکم ملے اسے بجا لائے‘ تو اس کی یہ حالت ’’قنوت‘‘ کہلاتی تھی. نماز میں دعائے قنوت وہ دعا ہے جو کھڑے ہو کر مانگی جاتی ہے‘ ورنہ عام طور پر دعائیں قعدہ میں تشہد اور درود شریف کے بعد بیٹھ کر ہی مانگی جاتی ہیں.
(۴) الصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰت: ’’راست بازو راست گو مرد اور راست بازو راست گو عورتیں‘‘. جو بات کے بھی سچے ہوں اور عمل کے لحاظ سے بھی سچے ہوں.

(۵) الصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرَاتِ: ’’صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘‘. صبر کا مفہوم بہت جامع ہے. صبر معصیت پر بھی ہے کہ گناہ سے خود کو روکا جائے. صبر اطاعت پر بھی ہے کہ جو حکم بھی ملے اسے بجا لایا جائے. مثلاً چاہے شدید سردی ہے اور گرم پانی میسر نہیں ہے تو ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھی جائے. اس لیے کہ نماز فرض ہے اور اس کے لیے وضو شرط ہے. پھر یہ کہ اسلام پر چلنے میں جو تکالیف اور مشکلات پیش آئیں انہیں برداشت کرنا بھی صبر ہے.
(۶) الْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰت: ’’عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں‘‘. یعنی اللہ کے سامنے عجز کا اظہار کرنے والے اور اس کے آگے جھک جانے والے مرد اور عورتیں. ’’خشوع‘‘ جھکاؤ یا فرمانبرداری کی کیفیت کو کہتے ہیں.
(۷) المُتَصَدِّقِین والمُتَصَدِّقٰت: ’’صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں‘‘. یعنی جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں پر خرچ کرتے ہیں. صدقہ و خیرات میں زکوٰۃ بھی شامل ہے جو ہر صاحب ِنصاب پر فرض ہے‘ اور دیگر نفلی صدقات بھی!
(۸) الصَّآئِمِیْن وَالصّٰٓئِمٰت: ’’روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں‘‘. نوٹ کیجئے کہ ان صفات میں ایمان کے علاوہ نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ جیسے ارکان اسلام بھی آگئے ہیں.
(۹) الحٰفِظِین فُرُوجَھُم وَالحٰفِظٰت: ’’اپنی شرمگاہوں (اور عصمت و عفت) کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں‘‘. عفت و عصمت کی حفاظت مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے اور اس ضمن میں اسلام دونوں پر یکساں پابندیاں عائد کرتا ہوں.
(۱۰) الذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَالذّٰکِرٰت: ’’اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور (اللہ کا کثرت سے) ذکر کرنے والی عورتیں.‘‘ اگلی آیت میں آخری بات دو ٹوک انداز میں بیان فرما دی گئی جو اس پہلی منزل کا خلاصہ اور لب لباب ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶
’’اور کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول (ان کے بارے میں) کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر بھی ان کے پاس اس بات میں کوئی اختیار باقی رہ جائے. اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا.‘‘

یعنی مسلمان اور مؤمن مردوں اور عورتوں کا طرز عمل تو یہ ہوتا ہے کہ جب کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم یا فیصلہ آ گیا تو اب ان کے اپنے انتخاب یا اختیار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی . اور اگر کوئی اس کے برعکس رویہ اختیار کرتا ہے تو یہی معصیت اور نافرمانی ہے اور حقیقت کے اعتبار سے کفر ہے. اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی روش اختیار کریں گے‘ خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں‘ تو وہ پھر بڑی صریح گمراہی کے اندر مبتلا ہو گئے. یہ گویا اسلام‘ اطاعت اور عبادت کا لب ِلباب ہے. اسلام کیا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا! اطاعت کیا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری! عبادت کیا ہے؟ ہمہ تن اور ہمہ وقت اللہ ہی کا بندہ بن جانا!! ان تمام چیزوں میں کانٹے کی بات یہ ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول کا حکم آ گیا وہاں ہمار اختیار ختم! ہاں اگر کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا واضح حکم موجود نہیں تو گویا اللہ نے ہمیں یہ اختیار دے دیا ہے کہ یہاں ہم اپنی مرضی‘ فہم‘ ذوق اور مزاج کے مطابق معاملہ طے کر لیں. لیکن جہاں دوٹوک حکم آچکا ہو اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُــہٗ اَمْرًا پھر بھی انسان یہ سمجھے کہ میرے پاس کوئی اختیار یا option ہے تو یہ گویا اسلام او رایمان کے منافی بات ہو گی.

یہ پہلی منزل ہے‘ جہاں پر دینی ذمہ د اریوں کے اعتبار سے مرد و عورت میں بہت معمولی فرق ہے. لیکن جیسے جیسے ہم اوپر چلتے جائیں گے‘ یہ فرق بڑھتا چلا جائے گا. پہلی منزل پر یہ فرق بہت تھوڑا ہے‘ دوسری منزل پر بہت نمایاں ہے‘ جبکہ تیسری منزل پر جا کر یہ فرق بہت بڑھ جائے گا. ہمیں اس فرق کی اساس کو سمجھ لینا چاہیے. اسلام شرم و حیا اور عصمت و عفت کی انتہائی اہمیت بیان کرتا ہے. اسلام چاہتا ہے کہ معاشرے میں ان چیزوں کی خوب حفاظت ہو. یہی وہ اصول اور مقصد ہے جس کے تحت ستر و حجاب اور لباس کے احکام دیے گئے اور اس معاملے میں مرد و عورت کے مابین فرق رکھا گیا. حجاب اور پردے کے احکامات خالص عورتوں کے لیے ہیں اور ان میں بھی محرم اور نامحرم کا فرق روا رکھا گیا ہے. سورۃ النور میں اس ضمن میں ایک طویل آیت وارد ہوئی ہے. بہرحال یہ ایک مکمل مضمون ہے جس پر میری ایک کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے موجود ہے. اس کے علاوہ اس موضوع پر مولانا مودودی ؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ بڑی معرکۃ الآراء کتاب ہے. اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب ’’پاکستانی عورت دو راہے پر‘‘ بھی ایک عمدہ کتاب ہے. اِس وقت ستر وحجاب کی بنیاد پر اس فرق و تفاوت کو واضح کرنا مقصود ہے کہ دینی فرائض کی اوپر کی جو دومنزلیں ہیں‘ ان میں مرد و عورت کے مابین جو فرق و تفاوت ہے وہ اصلاً اسی بنیاد پر ہے کہ معاشرے میں شرم و حیا کا ماحول برقرار رہے‘ اور عصمت و عفت اور پاک دامنی کی پوری پوری حفاظت کا بندوبست کیا جائے.
پہلی منزل پر بھی جو فرق ہے وہ اسی بنیاد پر ہے کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مردوں اور عورتوں کے مابین بلا ضرورت کوئی اختلاط یا آپس میں ملنا جلنا ہو. چنانچہ اسلام دونوں کے علیحدہ علیحدہ دائرہ کار قائم کرتا ہے اور دونوں کی ذمہ داریاں اور فرائض کا علیحدہ علیحدہ تعین کرتا ہے. نماز کے ضمن میں آخر یہ فرق کیوں کیا گیا کہ مردوں کی نماز گھر کی نسبت مسجد میں افضل ہے‘ جبکہ عورت کی نماز گھر کے اندر اور گھر کی بھی اندرونی کوٹھڑی میں زیادہ افضل ہے اور مسجد میں ان کی آمد پسندیدہ نہیں ہے. اس کا سبب یہی ہے کہ اس میں اختلاط کا ایک امکان پیدا ہوتا ہے. راستہ چلتے‘ مسجد کو آتے جاتے مردوں سے مڈبھیڑ ہو سکتی 
ہے. مسجد کے اندر بھی خواہ کتنا ہی اہتمام کر لیا جائے مگر اس کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی بے حجابی کی کیفیت نہ پیدا ہو جائے یا کسی نا محرم کی نظر نہ پڑ جائے. انہی احتمالات کی وجہ سے پہلی منزل پر بھی باریک سا فرق واقع ہو گیا‘ جو میں بیان کر چکا ہوں.