یہ فرق جب آگے بڑھے گا تو بہت زیادہ نمایاں ہو جائے گا.ـ مثلاً دوسری منزل پر دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے… اس کے ضمن میں ہمارے دین نے جو عام ترتیب سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’الأ قرَبُ فالأقرَب‘‘ کے اصول پر اصلاح کا کام پہلے اپنے آپ سے شروع کیا جائے‘ پھر گھر والوں کی اصلاح کی فکر کی جائے اور اس کے بعد دوسرے لوگوں پر دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے. لیکن اگر کوئی شخص سات سمندر پار جا کر تبلیغ کر رہا ہو‘ جبکہ اس کے اپنے گھر میں دین کا معاملہ تسلی بخش نہ ہو تو یہ درحقیقت غلط ترتیب ہے‘ جس کی وجہ سے وہ برکات ظاہر نہیں ہوتیں جو نبی اکرم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تبلیغ سے ظاہر ہوئیں.

اب اس ترتیب کو سامنے رکھیں تو ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین کے لیے دعوت‘ تبلیغ‘ نصیحت اور اصلاح کا اوّلین دائرہ ان کا اپنا گھر ہے. ان کے اپنے بچوں کی تعلیم‘ تربیت اور اصلاح کلیتاً ان کی ذمہ داری ہے. اس سے آگے بڑھ کر خواتین کا حلقہ اور اس سے مزید آگے محرم مردوں کا حلقہ آئے گا. بس ان تین حلقوں میں خواتین کو دعوت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دینے ہیں. سب سے پہلے حلقے کے بارے میں سورۃ التحریم میں قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (آیت ۶کے الفاظ آئے ہیں. یعنی اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ! اس ضمن میں رسول اللہ  کی یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہیے. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیِّتِہٖ

’’تم میں سے ہر شخص گلہ بان ہے اور تم میں سے ہر شخص اپنے گلے کے بارے میں جوابدہ ہے.‘‘ یعنی جس طرح ہر چرواہے کی ذمہ داری میں کچھ بھیڑ بکریوں پر مشتمل ایک گلہ ہوتا ہے اور وہ چرواہا گھر سے اس گلے کو لے جانے اور بحفاظت واپس لانے کا ذمہ دار ہوتا ہے‘ اسی طرح ہر شخص کی حیثیت ایک گلے بان کی سی ہے اور جو کچھ اس کے چارج میں ہے‘ وہ اس کے بارے میں مسئول اور ذمہ دار ہے. چنانچہ آنحضور نے ارشاد فرمایا:

وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِی اَھْلِہٖ وَمَسْؤُْوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ
’’اور آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے‘ اور وہ اپنی اس رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے.‘‘

یعنی اس سے اللہ کے ہاں یہ پوچھا جائے گا کہ اس پر اس کے گھر والوں کی اصلاح و تربیت اور دوسرے حقوق کی ادائیگی کی جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی وہ اس نے کس حد تک ادا کی. اس کے بعد حضور نے فرمایا:

وَالْمَرْاَۃُ رَاعِیَۃٌ فِی بَیْتِ زَوْجِھَا وَ مَسْؤُوْلَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِھَا
’’اور عورت اپنے شوہر کے گھر پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا.‘‘

اور ظاہر بات ہے کہ اس کی ر عیت میں اس کی اولاد اس کا مصداقِ اوّل ہے. اور ایک روایت میں تو الفاظ ہی یہ آئے ہیں:

وَالْمَرْأ ۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْؤُوْلَۃٌ عَنْھُمْ
’’اور عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ اور اس کی اولاد پر نگران ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابد ہ ہے.‘‘

یعنی اس کے دیگر افراد خانہ اور باندیاں اور غلام وغیرہ بھی اس کی نگرانی اور ذمہ داری میں ہوں گے‘ مگر اصل ذمہ داری اولاد کی ہے. (یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور ذرا سے لفظی اختلاف کے ساتھ اسے مسلم‘ ترمذی اور ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے.)

یہ معاملہ واقعتا نہایت اہم ہے‘ کیونکہ اگر ہم غور کریں تو کسی بھی قوم کا مستقبل اس کی آئندہ نسل سے وابستہ ہے اور آئندہ نسل کا سارا بوجھ اللہ تعالیٰ نے عورت پر ڈالا ہے. اس کی پیدائش کے علاوہ اس کی پرورش کا بھی اصل بوجھ عورت ہی پر ہے.وہی تو ہے کہ جو بچوں کی پرورش کی خاطر سب سے بڑھ کر اپنی نیندیں حرام کرتی ہے اور اپنے آرام کی قربانی دیتی ہے. پھر ان کی تعلیم کی اوّلین ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے. بچے کی سب سے پہلی تعلیم گاہ درحقیقت ماں کی گود ہے. چنانچہ علامہ اقبال مسلمان ماں کے بارے میں کہتے ہیں: ؏ ’’ آسیا گرداں و لب قرآں سرا ‘‘اور یہ نقشہ ہم نے بچپن میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین بچے کو دودھ پلاتے ہوئے قرآن بھی پڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی چکی بھی چلا رہی ہیں. اور بچے کو گود میں لے کر ماں جب قرآن پڑھتی ہے تو بچہ اسے سنتا ہے. یہ چیزیں غیر محسوس طریقے سے منتقل ہوتی ہیں.

آخر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بچہ جب پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جائے تو اس کا کوئی نہ کوئی اثر تو لازماً ہوتا ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمیں کوئی حکم دیا گیا ہو اور اس کی کوئی افادیت یا علت نہ ہو. بچہ بے شعور سہی‘ مگر آپ کو معلوم ہے کہ ٹیپ ریکارڈر میں چلنے والی کیسٹ بھی بے شعور ہوتی ہے‘ لیکن جو کچھ ہم بولتے ہیں اس کے اثرات اس پر ثبت ہو جاتے ہیں اگرچہ وہ نظر نہیں آتے. اور جب آپ ٹیپ چلاتے ہیں تو وہ آوازبرآمد ہو نا شروع ہو جاتی ہے. اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بچے کے تحت الشعور کے اندر بھی کوئی ٹیپ ہو‘ جس پر اذان اور اقامت کی آواز اپنے اثرات مرتب کرتی ہو. اسی طرح اگر ایک ماں اپنے بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہو‘ اس کے ہاتھ چکی چلا رہے ہوں اور ہونٹ قرآن کی تلاوت کر رہے ہوں تو ممکن نہیں کہ اس قرآن کے اثرات بچے کی شخصیت پر نہ پڑیں.ـ جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے: ؏ ’’ کہ درآغوش شبیرے بگیری!‘‘ کہ ایسی خواتین کی گود کے اندر حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ عنہماجیسے پھول کھلیں گے. 

اسی لیے کہا گیا ہے : اُطْلُـبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ ’’علم حاصل کرو‘ ماں کی گود سے لے کر قبر تک‘‘. ’’مہد‘‘ ماں کی گود کو کہتے ہیں‘ اور واقعہ یہ ہے کہ بچے کی تعلیم کا نقطہ آغاز یہی ہے. تو خواتین کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنی اولاد کی تربیت ہے‘ اور ان کی سب سے کڑی مسؤلیت اولاد ہی کے بارے میں ہو گی. لہذا اس اہم ذمہ داری کی قیمت (cost) پر‘ یعنی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے یا اس میں کوتاہی کرتے ہوئے کوئی اور کام کرنا قطعاً جائز نہیں ہے. البتہ اگر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے کہ اولاد کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد بھی وقت بچ رہا ہو تو پھر انہیں مزید محنت کرنی چاہیے. خاص طور پر جوان خواتین‘ جن کے بچے ابھی چھوٹے ہوں اور اولاد کی پیدائش کا سلسلہ ابھی جاری ہو ‘ آج کے دور میں ان کی ذمہ داریاں اتنی کٹھن ہیں کہ انہیں پورا کرنے کے بعد بہت کم وقت بچتا ہے. لیکن جو بھی وقت بچے وہ اسے صرف کریں‘ اپنے آرام کی قربانی دیں اور دوسرے قریبی حلقوں میں دعوت کا کام کریں‘ جیسا کہ میں بعد میں عرض کروں گا. لیکن اس کی خاطر اولاد کو نظر انداز کرنا قطعاً جائز نہیں.

ہمارے ہاں جو یہ ہو رہا ہے کہ سات سمندر پار تبلیغ ہو رہی ہے اور اپنے گھر والوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو یہ اس قسم کا طرز عمل ہے جس کے بارے میں سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع میں آیا ہے: 

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ … (آیت۴۴)
’’ کیا تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟‘‘

اپنی اولاد کی طرف سے عدم توجہی اور لاپرواہی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی تربیت صحیح طور پر نہیں ہو پاتی اور لامحالہ ماحول کے اثرات ان پر مرتب ہو کر رہتے ہیں اور ان کی ذہنیت و خیالات معاشرے کے رنگ سے لازماً متأثر ہوتے ہیں. اور آج کا بچہ تو الحاد‘ کفر‘ بے حیائی اور عریانی‘ ان سب عفریتوں کی زد میں ہے. ٹی وی اس کے سامنے ہے‘ اخبارات اس کے اردگرد ہیں اور وہ ان کی یلغار کی زد میں ہے. جس طرح امریکہ نے عراق پر وحشیانہ انداز میں بمباری کی ہے‘ اسی طرح ہمارے بچے الحاد اور بے حیائی کی بمباری کی زد میں ہیں. اب اگر ان کی ذمہ داریوں سے اعراض کیا جائے اور گھروں سے باہر نکل کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا جا رہا ہو‘ تو یہ ترتیب کو الٹا کر دینے والی بات ہے.

جہاں تک دوسرے دائرے یعنی گھر سے باہر نکل کر دوسری خواتین میں دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کا تعلق ہے تو میرے خیال میں اس کے لیے منظم کوشش وقت کی اہم ضرورت ہے. البتہ اس کے لیے ایسی خواتین کو زیادہ فعال ہونا چاہیے جو ادھیڑ عمر کی ہیں‘ اور ان کے لیے حجاب کے احکامات میں بھی وہ شدت نہیں ہے. بڑی عمر کی خواتین کے لیے سورۃ النور میں فرمایا گیا: فلَـیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ (آیت۶۰کہ ان پر کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنی چادریں اتار کر رکھ بھی دیا کریں! یعنی ستر کی شدت تو برقرار رہے گی مگر پردے اور حجاب کے ضمن میں ان پر اب وہ شدید پابندیاں نہیں ہیں جو ایک نوجوان عورت پر ہیں. لیکن ہمارے معاشرے میں عملاً جو صورت حال ہے‘ وہ ایک برعکس نقطۂ نظر کی غمازی کرتی ہے. ہوتا یہ ہے کہ جو خواتین شروع ہی سے گھر میں رہنے کی عادی ہوتی ہیں اور حکم قرآنی: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوِتِکُنَّ (الاحزاب:۳۳’’اپنے گھروں میں قرار پکڑو‘‘ پر عامل ہوتی ہیں‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بجا طور پر پردے کی بھی خوگر ہوتی ہیں تو ایسی خواتین خواہ بڑھاپے کی سرحد پر پہنچ چکی ہوں‘ ان کی ایک طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے کہ پھر ان کی طبیعت کہیں بھی نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی‘ چاہے شریعت کی طرف سے اب پابندیاں ہلکی ہو رہی ہیں. یہ اس تصویر کا بالکل دوسرا رخ ہے. 

میرے نزدیک اس معاملے میں حساسیت کو کم کر دینا چاہیے اور ایسی خواتین کے پاس اگر وقت فارغ ہو تو انہیں دین کے کاموں میں زیادہ ہچکچانا نہیں چاہیے. طویل سفر کے لیے تو ظاہر ہے کہ محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے‘ مگر شہروں کے اندر اگر خواتین کے اپنے حلقوں میں درس و تدریس کے لیے نقل و حرکت ہو رہی ہو‘ تو انہیں اپنی تمام احتیاطات کے ساتھ ان دینی امور میں ضرور حصہ لینا چاہیے. جہاں تک جو ان لڑکیوں کا تعلق ہے‘ ان کے لیے اس میں بھی بڑے خطرات ہیں. میرے نزدیک اس معاشرے میں ان کا اکیلے باہر نکلنا سرے سے جائز نہیں. بنابریں وہ خواتین جن پر اولاد وغیرہ کی ذمہ داریاں نہ ہوں‘ یا اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد بھی ان کے پاس وقت فارغ ہو تو وہ ستر وحجاب کی پوری پابندی کرتے ہوئے ان سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں‘ بشرطیکہ جب باہر نکلیں تو محرم ساتھ ہو. میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہم جس معاشرتی طوفان سے دو چار ہیں‘ اس میں جب تک کوئی منظم کوشش نہیں ہو گی‘ اثرات کا نکلنا اور ظاہر ہونا بعیداز قیاس ہے. چنانچہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ خواتین اگر اپنا حلقہ منظم کریں‘ ان کے اپنے اجتماعات اور کلاسز کا نظام قائم ہو‘ جن میں تعلّم و تعلیم قرآن اور عربی زبان کی درس و تدریس کے علاوہ دعوت و تبلیغ اور تذکیر و تلقین کا اہتمام ہو تو یہ یقینا مطلوب ہے.

خواتین کی تعلیمی و تربیتی اور دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کا تیسرا حلقہ ان کے محرم مردوں پر مشتمل ہے‘ یعنی ان کے بھائی‘ والد‘ چچا‘ ماموں ‘بھتیجے اور بھانجے وغیرہ.یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شوہر کے بھتیجے‘ بھانجے محرم نہیں‘ نامحرم ہیں. عورت کا محرم وہ ہے جس سے اس کی شادی کبھی بھی نہیں ہو سکتی‘ جبکہ شوہر کی وفات کے بعد شوہر کے بھتیجے یا بھانجے سے نکاح ہو سکتا ہے‘ لہٰذا وہ نامحرم ہیں. تو محرم مردوں میں دعوت و اصلاح کا کام بھی ہونا چاہیے. اس لیے کہ ایسا اکثر دیکھنے میںآ رہا ہے کہ ہماری جو پچھلی نسل ہے اس پر مغرب کے اثرات زیادہ ہیں.

اب جبکہ دینی جماعتوں اور تحریکوں کے ذریعے دین کا چرچا متوسط طبقے میں بڑھ گیا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نوجوان لڑکوں کے چہروں پر تو داڑھیاں ہیں‘ لیکن ان کے والد اور دادا کلین شیو نظر آتے ہیں. یہ الٹی گنگا اس لیے بہہ رہی ہے کہ اس نوجوان نسل پر تبلیغی جماعت‘ جماعت اسلامی اور دیگر دینی تحریکوں کے اثرات پڑے ہیں‘ جبکہ پچھلی نسل ان اثرات سے عاری ہے . اسی طرح اب نوجوان نسل کے اندر ایسی لڑکیوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے جو ستر وحجاب کی پابندی کرنا چاہتی ہیں‘ لیکن ان کے والدین کے ہاں یہ تصور نہیں ہے. تو ان کے لیے اپنے والد‘ بھائیوں اور دیگر محرموں کو تبلیغ کرنا اور اُن کو صحیح راستے کی طرف بلانا مقدم ہے. عورتوں کے لیے یہ دعوت وتبلیغ کا تیسرا میدان ہے.

بعض دینی حلقوں کے زیر اثر خواتین الیکشن کے دنوں میں کنویسنگ کے لیے گھر گھر جاتی ہیں. ظاہر ہے کہ اگر کسی کے پیش نظر یہ ہو کہ اسلام الیکشن کے ذریعے سے غالب ہوگا‘ تو اسے اس کے لیے وسیع پیمانے پر رابطہ کرنے کے لیے گھر گھر جانا ہو گا. چنانچہ نوجوان لڑکیاں اور خواتین گھر گھر جا کر ووٹوں کے لیے رابطہ کرتی ہیں. اگرچہ وہ یہ کام پردے کے ساتھ کرتی ہیں‘ جو اپنی جگہ قابل تعریف بات ہے‘ لیکن نوجوان بچیوں کا اس طرح اجنبی گھروں میں جانا بڑی نامناسب بات ہے‘ کیونکہ ہمارا دین خواتین کو اجنبی عورتوں کے ساتھ میل جول سے بھی منع کرتا ہے. مسلمان خواتین کے لیے اجنبی عورتیں بھی محرم نہیں ہیں‘ کیونکہ سورۃ النور میں محرموں کی جو فہرست آئی ہے اس میں ’’وَنِسَائِھِنَّ‘‘ بھی فرمایا گیا ہے. یعنی اپنی عورتیں‘ جانی پہچانی عورتیں‘ معروف عورتیں جن کے کردار کے بارے میں معلوم ہے کہ شریف خواتین ہیں‘ ورنہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اجنبی عورت جو گھر میں چلی آ رہی ہو کسی بری نیت سے آ رہی ہو.

تو اسلام کی رُو سے اجنبی عورتوں کو اپنے گھروں میں بھی اس طرح بے محابا داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ کجا یہ کہ مسلمان نوجوان لڑکیاں ہر طرح کے گھروں میں جائیں. اس میں یقینا بہت سے فتنے اور خطرات موجود ہیں. بہرحال اس حلقے کے پیش نظر چونکہ انتخابی طریق کار ہی ہے تو شاید انہوں نے اس کے لیے اس طرح سے گھر گھر رابطہ ناگزیر سمجھ لیا ہو‘ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی اس معاشرے کے اندر بہت بڑی ذہنی‘ فکری اور اخلاقی تبدیلی کی ضرورت ہے. ایک ’’حزب اللہ‘‘ کو وجود میں لانے کے لیے ابھی بڑی محنت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے میں نے مسلمان خواتین کے تین دائرہ ہائے کار بتا دیے ہیں. اگر کبھی ہنگامی حالات پیدا ہو جائیں تو ان میں یقینا احکام کچھ مختلف ہو سکتے ہیں‘ اور میں ابھی اس کے بارے میں بھی عرض کروں گا‘ لیکن اِس وقت کے جو حالات ہیں ان میں دعوت و تبلیغ کے ضمن میں ایک مسلمان خاتون کے لیے یہی تین دائرے ہیں.