مردوں اور عورتوں کے دینی فرائض کے ضمن میں ایک اہم فرق بیعت کا ہے. آپ کے علم میں ہو گا کہ آنحضورﷺ نے اقامت ِ دین کے لیے‘ ہجرت سے متصلاً قبل سمع و طاعت کی جو بیعت لی وہ صرف مردوں سے لی‘ جو بہت سخت بیعت ہے. یہ ’’بیعت عقبۂ ثانیہ‘‘ کہلاتی ہے‘ جس میں ہر حال میں امیر کے حکم کی پابندی کا عہد ہے‘ جسے ’’ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ‘‘ کے الفاظ سے واضح کیا گیا ہے. یعنی خواہ تنگی ہو‘ خواہ آسانی اور خواہ طبیعت اس کے لیے آمادہ ہو‘ خواہ طبیعت پر جبر کرنا پڑے. پھر اس میں درجہ بدرجہ تمام امراء کے حکم کی پابندی کرنا بھی شامل ہے. یہ چیزیں واقعتا بہت سخت اور نفس پر بڑی شاق گزرنے والی ہیں‘ لیکن وہ منظم جماعت جسے اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنا ہو اور جہاد و قتال کے مراحل سے گزرنا ہو‘ وہ ان کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی.
چنانچہ بیعت ِعقبہ ٔثانیہ کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں اصل زور نظم ِجماعت پر ہے اور اس کے ضمن میں ’’سمع و طاعت‘‘ کی مثبت تاکید کے ساتھ ساتھ منفی انداز میں ان تمام رخنوں کا سدباب بھی کر دیا گیا ہے جو نفسیاتی یا ’’نفسانی‘‘ وجوہات کی بنا پر پیدا ہو سکتے ہیں. لیکن جہاں تک خواتین کی بیعت کا تعلق ہے تو اگرچہ بیعت عقبہ ثانیہ کے ضمن میں تو نہ صراحتاً یہ مذکور ہے کہ وہ اس بیعت میں شریک نہیں تھیں‘ نہ ہی یہ کہ ان سے کوئی جداگانہ بیعت لی گئی ہو (حالانکہ اس موقع پر دو خواتین کی موجودگی قطعی طور پر ثابت ہے!) البتہ قرآن و سنت میں خواتین کی جو بیعت مذکور ہے وہ دراصل نیکی اور تقویٰ کی بیعت ہے‘ جو کفر و شرک‘ برائیوں‘ حرام کاموں‘ جھوٹ‘ چوری‘ زنا اور تہمت و بہتان طرازی کے ساتھ ساتھ آنحضورﷺ کی نافرمانی سے ’’اجتناب‘‘ کے عہد پر مشتمل ہے.
اور اس کے الفاظ تقریباً وہی ہیں جو ’’بیعت ِعقبہ ٔثانیہ‘‘ سے ایک سال قبل منعقد ہونے والی ’’بیعت ِعقبہ ٔاولیٰ‘‘ کے ضمن میں وارد ہوئے ہیں‘ جو یثرب کے بارہ مسلمان مردوں سے لی گئی تھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’جماعتی نظم‘‘ کی پابندی کے معاملے میں مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری یکساں اور برابر نہیں ہے اور اس کا براہ راست تعلق ہے اس حقیقت سے کہ فرائض دینی کی تیسری اور بلند ترین منزل یعنی اقامت ِ دین اوراعلاء کلمتہ اللہ کی جدوجہد میں خواتین کی ذمہ داری براہ راست نہیں‘ بالواسطہ ہے! (واضح رہے کہ ہمارے یہاں صوفیاء کے حلقوں میں جو ’’بیعت ِارشاد‘‘ رائج ہے وہ بھی دراصل اسی ’’بیعت عقبہ اولیٰ‘‘ یا ’’بیعت النساء‘‘ سے مشابہ ہے‘ اور اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ان کے یہاں بالعموم اقامت دین کی فرضیت کا تصور موجود نہیں ہے!)ـ