اس سب کے باوجود جہاں تک ایک جماعتی زندگی کا تعلق ہے‘ ا س کے بارے میں میرا احساس یہ ہے کہ جس طرح یہ مردوں کے لیے ضروری ہے اسی طرح خواتین کے لیے بھی ضروری ہے. اس لیے کہ جماعتی زندگی میں ایک برکت ہے. اس سے نیکی و بھلائی کاماحول پیدا ہوتا ہے اور دوسرے ساتھیوں کو اچھے کاموں اور نیکیوں میں آگے بڑھتے دیکھ کر اپنا حوصلہ بھی بڑھتا ہے. جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے کسی رفیق یا رفیقہ نے اپنے گھر میں ہونے والے کسی غلط کام کو ترک کر دیا ہے یا ترک کروا دیا ہے تو آپ میں بھی ایسا کرنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے. چنانچہ جماعتی زندگی کی برکتوں اور فوائد سے عورتوں کو بھی محروم نہیں رکھا گیا. اس کے لیے سورۃالتوبہ کی آیت ۷۱ کا مطالعہ کیجئے. فرمایا:
وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیۡعُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ سَیَرۡحَمُہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۷۱﴾
’ ’ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں. وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں‘ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں. یہ وہ ہیں کہ جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا‘ یقینا اللہ تعالیٰ زبردست اور حکمت والا ہے.‘‘
اور یہ جماعتی ماحول کی برکات ہی کا مظہر ہے کہ حضورﷺ نے خواتین سے بھی بیعت لی. نتیجتاً خواتین میں بھی یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہم ایک اجتماعیت میں شریک ہیں‘ ہمارا کسی کے ساتھ کوئی ربط و تعلق ہے‘ ہمیں ان کے احکامات سن کر ان پر عمل کرنا ہے‘ نیکی کے کام بجا لانے ہیں‘ کیونکہ ہم نے قول و قرار کیا ہے. اس سے خود احتسابی کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب اگر ہم یہ کام نہیں کر رہے تو گویا اپنے عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں.
چنانچہ ہم نے بھی تنظیم اسلامی میں خواتین کا ایک حلقہ رکھا ہے اور ہمارے ہاں ان کی بیعت کا سلسلہ بھی موجود ہے. ہماری تمام تر خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ہم تمام معاملات میں کتاب و سنت سے اور اسوۂ رسولﷺ کی عملی مثالوں سے حتی الامکان قریب ترین رہنے کی کوشش کریں. جس طرح حضورﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ فرمایا تھا: ’’میرے قریب آ جائو‘‘. پھر فرمایا: ’’میرے اور قریب آ جاؤ!‘‘ تو اسی طرح ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ حضور ﷺ کا جو طریقہ و اسوہ تھا اس سے قریب سے قریب تر رہنے کی امکانی کوشش جاری رکھیں.
لہٰذا ہم نے اقامت ِ دین اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے لیے جو تنظیم اسلامی قائم کی ہے اس میں جہاں تک منکرات سے اجتناب اور اقامت ِدین اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے جہاد و انفاق کے ضمن میں سورۃ التوبۃکی آیت ۱۱۱ کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’بیع‘‘ کا معاملہ ہے اس میں تو مردوں اور عورتوں سب کو شامل کیا گیا ہے‘ البتہ ’’سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کے نظم کی پوری شدت کے ساتھ پابندی کی ’’بیعت‘‘ جس کے الفاظ متفق علیہ حدیث سے ماخوذ ہیں ‘ صرف مردوں کے لیے رکھی گئی ہے ‘ جبکہ خواتین کے لیے بیعت کے وہی الفاظ اختیار کیے گئے ہیں جو سورۃ الممتحنہ کی آیت ۱۲ میں وارد ہوئے‘ اور جن میں نبی اکرمﷺ کی اطاعت کا ذکر اوّلاً تو ’’سمع وطاعت‘‘ کے مثبت اسلوب میں نہیں بلکہ صرف اس منفی انداز میں ہے کہ ’’آپؐ کی نافرمانی نہیں کریں گی‘‘ اور ثانیاً‘ یہاں خود نبیؐ کی اطاعت کے ضمن میں بھی ’’معروف‘‘ کی قید کا اضافہ غمازی کررہا ہے کہ جس قسم کا چاق و چوبند نظم مردوں سے مطلوب ہے خواتین کا معاملہ اس درجہ کا نہیں.
البتہ خواتین کی تنظیم میں شمولیت اوربیعت اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ان میں ایک تنظیم اور اجتماعیت کا شعور اور مسئولیت و ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے‘ جو فی نفسہٖ مطلوب ہے‘ تاہم جیسا کہ میں تفصیل سے عرض کرچکا ہوں‘ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں ان کی ذمہ داریاں مردوں کی ذمہ داریوں سے بہت مختلف ہیں اور فرائض دینی کی اس تیسری بلند ترین منزل پر ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ وہ بالواسطہ ہیں. وہ اگر اس سطح کی جدوجہد میں اپنے آپ پر خواہ مخواہ ایسی ذمہ داریاں عائد کر لیتی ہیں جن کا اللہ نے انہیں مکلف نہیں ٹھہرایا تو اس سے اندیشہ ہے کہ بجائے خیر کے کوئی شر پیدا ہو جائے. اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرز عمل سے محفوظ رکھے اور ان ذمہ د اریوں کو کماحقہ‘ ادا کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے جو اس نے ہم پر عائد کی ہیں!
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات