نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہم مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ مرورِ زمانہ کے سبب مسلمانوں کی عظیم ترین اکثریت اسلام کے اہم ترین مطالبوں اور تقاضوں سے محجوب ہوتی چلی گئی اور ہوتی چلی آ رہی ہے‘ اور اسلام کو‘جو درحقیقت ’’دین اللہ‘‘ یعنی خدا کا نازل کردہ نظامِ حیات تھا‘ بفحوائے آیت ِ قرآنی اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ محض ایک ’’مذہب‘‘ سمجھ لیاگیا اور اس کا دائرہ چند انفرادی عبادات اور معاشرتی رسوم کی ادائیگی تک محدود قرار دے لیا گیا.حالانکہ جب اسلام غالب نظام کی حیثیت سے قائم و نافذ نہ ہوتو ہر مسلمان کی جدوجہد اور مساعی کا اصل ہدف ’’اقامت ِ دین‘‘ ہونا چاہیے اور اس کے لیے محنتیں کرنا‘ جان و مال کھپانا اور سر دھڑ کی بازی لگانا عین تقاضائے ایمان ہے اور نجاتِ اخروی کے ناگزیر لوازم و شرائط میں داخل ہے‘ جیسا کہ سورۃ العصر میں فرمایا گیا:

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے جب دعوت رجوع الی القرآن کے لیے جنوری ۱۹۷۲ء سے ہر ماہ کراچی تشریف لانے کا سلسلہ شروع کیا ‘جہاں ایک خطابِ جمعہ اور تین چار دروسِ قرآن حکیم کا انتظام ہوتا تھا تو اس دوران میں موصو ف نے ستمبر‘ نومبر اور دسمبر ۱۹۷۲ء میں مدینہ مسجد آرٹلری میدان کراچی میں خطابِ جمعہ کے موقع پر قرآنی آیات کے حوالے سے ’’دین کے مطالبات‘‘ پیش کیے تھے. ان میں سے پہلا خطاب دعوتِ اسلامی کے نکتہ ٔ اوّل یعنی ’’بندگی ٔ رب‘‘ سے تعلق رکھتا تھا. دوسرے خطاب کا تعلق اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی اور غایت ِ تأسیس سے تھا‘ جس کا مناسب ترین عنوان ہے ’’ فریضہ شہادت علی الناس‘‘ اور تیسرا خطاب اُمت ِ مسلمہ کے فرضِ منصبی کی انجام دہی کی جدوجہد سے متعلق تھا‘ جس کے لیے جامع عنوان ہے ’’فریضہ ٔ اقامت دین‘‘.

یہ تینوں خطاب اس عاجز نے ٹیپ سے منتقل کر لیے تھے. ان میں سے اوّل الذکر دو خطاب ’’دعوتِ بندگی ٔ رب‘‘ اور ’’فریضۂ شہادتِ حق‘‘ کے ناموں سے کراچی کی ذیلی انجمن خدام القرآن کی جانب سے ۱۹۷۵ء میں شائع کیے گئے تھے. اپریل۸ ۱۹۷ء میں اس عاجز نے اللہ کا نام لے کر ان تینوں خطابات کو یکجا کر کے ’’مطالباتِ دین‘‘ کے نام سے مکتبہ ٔ تنظیم اسلامی کی جانب سے شائع کر دیا‘ جس کا دوسراایڈیشن پیش خدمت ہے. اظہارِ حقیقت کے طور پر عرض ہے کہ کسی تقریر اور خطاب کو ٹیپ سے منتقل کرنا اور اس کے اسلوب کو تحریری شکل دینا کافی کٹھن اور مشکل کام ہے.صرف اللہ کے کرم اور اس کی توفیق کے سبب یہ کام انجام پا گیا.

چونکہ یہ خطابات ڈاکٹر صاحب کی نظر ثانی کے بغیر شائع ہو رہے ہیں‘ لہذا ان میں زبان و انشاء اور بیان کے انداز و اسلوب میں جو کوتاہی رہ گئی ہو اس کا ذمہ اس عاجز کے کاندھوں پر ہے. قارئین سے گزارش ہے کہ ان کی نشاندہی ضر ور فرمائیں. مزید برآں عرض ہے کہ ان خطابات میں آیاتِ قرآنی کے ترجمے کی بجائے عموماً ترجمانی کی گئی ہے. آیات کی کتابت میں صحت کا اہتمام کرنے کی بھی انتہائی کوشش کی گئی ہے. راقم الحروف کو اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا پورا شعور ہے ‘ اس لیے احتمال ہے کہ احتیاط کے باوجود اغلاط رہ گئی ہوں. اس لیے اس دعا پر اپنی معروضات ختم کرتا ہوں : رَبَّـنَا لَا تُـؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا!!

احقر 
جمیل الرحمن
۱۵؍اپریل۱۹۸۰ء بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم