اس کے بعد تیسرے رکوع میں قرآن مجید بنی نوعِ انسان کے سامنے اپنی اصل دعوت پیش کرتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ)
’’اے لوگو! عبادت کرو اپنے اس پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا اور اُن کو بھی جو تم سے پہلے تھے‘ تاکہ تم بچ سکو.‘‘

یہ گویا قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ ہے جو اس ایک آیت میں ایک جملے کی صورت میں بیان کر دیا گیا ہے. بالفاظِ دیگر اگر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ قرآن مجید کی اصل دعوت کیا ہے‘ اس کا پیغام کیا ہے‘ اور وہ انسانوں کو کس بات کی طرف بلاتا ہے تو اس کے لیے یہ ایک جملہ ہی کفایت کرے گا‘ بشرطیکہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے. اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس آیت مبارکہ کے ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ کو وضاحت سے بیان کیا جائے.

اس آیت مبارکہ کا آغاز ’’یٰٓــاَیـُّـھَا النَّاسُ‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے اور ’’یٰٓــاَیـُّـھَا‘‘ کلمۂ ندا ہے‘ جو پکارنے کے لیے اور دعوت دینے کے لیے استعمال ہوا ہے. یعنی اے لوگو! اے بنی نوعِ انسان! اس اندازِ دعوت و تخاطب سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید ایک دعوت کا حامل ہے‘ اس کے پاس ایک پیغام ہے‘ یہ ایک پکار کا امین ہے. یہ مجرد ’’dogma‘‘ اور محض بے بنیاد اور بے دلیل عقائد پر مشتمل کوئی کتاب نہیں ہے کہ اس کی طرف لوگوں کو بلایا نہ جائے اور انہیں دعوتِ عمل نہ دی جائے. دوسرے یہ کہ یہ کسی ایک قوم‘ طبقے‘ نسل‘ قبیلے یا رنگ کے انسانوں یا کسی ایک ملک کے رہنے والوں کو نہیں پکارتا‘ بلکہ رنگ و نسل اور قوم و وطن کے امتیاز کے بغیر پوری نوعِ انسانی کو پکارتا ہے. اس کی دعوت زمان و مکان سے بالکل آزاد ہے اور تاقیامِ قیامت پورا عالمِ انسان اس کامخاطب ہے.