یہاں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ نبی اکرم کی بعثت سے قبل جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں ان کی دعوت پورے عالمِ انسانی کے لیے نہیں تھی‘ بلکہ اپنی اپنی قوم کے لیے تھی. لہذا اُن میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی قوم کو خطاب کر کے پکارا اور اسے دعوت پیش کی. قرآن مجید میں حضرت نوح‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح اور دوسرے انبیاء و رُسل علیہم الصلاۃو السلام کا نام بنام ذکر کرکے ان کی دعوت کے الفاظ نقل کیے گئے ہیں‘ جن میں کلمۂ خطاب ’’یٰــقَوْمِ‘‘ ہے‘ یعنی ’’ اے میری قوم کے لوگو!‘‘ حتیٰ کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی‘ جن کی نبوت محمد رسول اللہسے متصلاً قبل تھی‘ اپنی دعوت صرف بنی‘اسرائیل کے سامنے پیش کی. اس بات کی شہادت محرف شدہ اناجیل میں بھی مذکور ہے اور قرآن حکیم میں بھی آپؑ کے بارے میں وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاء یْلَ(اٰل عمران:۴۹کے صریح الفاظ وارد ہوئے ہیں. انجیل میں آپ ؑکے یہ الفاظ ملتے ہیں: ’’میں اسرائیل کے گھرانے کی گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں‘‘. گویا آپؑ کی دعوت کے اصل مخاطب بنی اسرائیل تھے‘ پوری نوعِ انسانی نہیں تھی. بعد میں قلب ماہیت ہوئی اور عیسائیت نے ایک تبلیغی مذہب کی حیثیت اختیار کر لی‘ ورنہ حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت اصلاً صرف بنی اسرائیل ہی کے لیے تھی. لیکن نبی آخرالزماں حضرت محمد رسول اللہ کی دعوت کے لیے یہاں ’’یٰــقَوْمِ‘‘ کے بجائے ’’یٰٓــاَیـُّـھَا النَّاسُ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں. یعنی اے لوگو! اے بنی نوعِ انسان!! یہ دعوت علی الاطلاق پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے.

مذاہب کی دُنیا سے علیحدہ ہٹ کر بھی سوچا جائے تو اِس وقت دنیا میں مختلف نظریات کی حامل بے شمار دعوتیں موجود ہیں‘ لیکن ان میں سے کوئی ایک دعوت بھی ایسی نہیں ہے جس میں پوری نوعِ انسانی کو علی الاطلاق اور بحیثیت ایک اکائی بلایااور پکارا جاتا ہو. موجودہ صدی میں زیادہ سے زیادہ بڑی دعوت جو قومی و جغرافیائی سطح سے کچھ بلند ہوئی‘ وہ اشتراکیت کی دعوت ہے‘ لیکن اس میں بھی پکار ہے کہ ’’دنیا بھر کے مزدورو اور کسانو! متحد ہو جاؤ!‘‘ یعنی یہ دعوت دنیا بھر کے انسانوں کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ صرف کسانوں اور محنت کشوں پر مشتمل ایک مخصوص طبقے کے لیے ہے‘ اور اس طرح سوسائٹی کو طبقات میں تقسیم کر کے ایک خاص طبقہ کی حمایت کا اعلان کیا جاتا ہے‘ اور دوسرے طبقوں کو نہ صرف ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے‘ بلکہ قابلِ نفرت گردانا جاتا ہے. دنیا میں وہ واحد دعوت جو پوری نوعِ انسانی کو بغیر کسی طبقاتی فرق و تفاوت کے مخاطب کرتی ہے‘ اسلام اور قرآن کی دعوت ہے. یہی ایک ایسی دعوت ہے جس کا خطاب ہر انسان سے ہے. امیر اور غریب یکساں طور پر اس کے مخاطب ہیں. وہ خواہ کسی ملک کے رہنے والے ہوں‘ کوئی سی زبان بولتے ہوں‘ کسی بھی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے حامل ہوں اور کسی دَور سے بھی تعلق رکھتے ہوں‘ ان سب کے لیے قرآن مجید میں پیغام ہے: ’’یٰٓــاَیُّھَا النَّاسُ‘‘ یعنی اس کا مخاطب کوئی خاص طبقہ‘ گروہ‘ قوم یا نسل نہیں ہے‘ بلکہ پوری انسانی برادری اس کی مخاطب ہے. لہذا صرف قرآن مجید کی دعوت ہی عالمگیر اور آفاقی حیثیت کی حامل دعوت ہے!