اس مقام پر اصولی بات یہ سمجھ لینے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد تک جتنے بھی انبیاء و رُسل علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے وہ یہی ’’عبادتِ ربّ‘‘ کی دعوت لے کر آئے تھے. یہ بات دو اور دو چار کی طرح بالکل بدیہی ہے کہ تمام انبیاء و رُسل ؑاسی دعوتِ بندگی ٔربّ کے داعی تھے. چونکہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق کی غرض و غایت ہی اپنی بندگی اور عبادت مقرر فرمائی ہے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا : وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰرِیٰت) ’’اورمیں نے جنوں اور انسانوں کی تخلیق ہی اس لیے کی ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘.

لہذا یہ لازم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ‘ اس کے پیغامبر‘ اس کے نمائندے‘ اس کے نبی اور رسول نوعِ انسانی کو اپنی تخلیق کی غرض و غایت کو پورا کرنے کی دعوت دیں. انہیں بتائیں کہ اگر انہوں نے اپنی تخلیق کا مقصد پورا نہ کیا‘ اس کا حق ادا نہ کیا‘ اپنے خالق اور ربّ کی بندگی اختیار نہ کی اور اس کو مطاعِ مطلق تسلیم کر کے اپنی پوری زندگی اس کی اطاعت میں نہ دے دی تو وہ دنیا میں بھی خائب و خاسر اور ناکام رہیں گے‘ اس کے غضب کے مستوجب قرار پائیں گے اور آخرت میں بھی ان کے حصے میں خسران و نامرادی کے سوا کچھ نہ آئے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے آگ کے عذاب کے حوالے کر دیے جائیں گے.

سورۃ الاعراف‘ سورۂ ھود‘ سورۂ یونس‘ سورۃ الانبیاء‘ سورۃ الشعراء اور متعدد مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء و رُسل علیہم السلام کا نام بنام ذکر فرمایا ہے اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ وہ ’’عبادتِ ربّ‘‘ کی دعوت لے کر اپنی اپنی قوموں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے. سورۃ الاعراف اور سورۂ ھود میں تو ہر رسول کی دعوت کی ابتدا کے لیے یہی کلمات نقل کیے گئے ہیں: یٰــقَومِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (الاعراف:۵۹‘ھود:۵۰’’ اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو‘ کیونکہ اُس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ( اور کوئی معبود) نہیں ہے! ‘‘دیگر مقامات پر انبیاء و رُسل ؑکی دعوت کے جو بنیادی نکات بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: اُعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ (العنکبوت:۱۶’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو!‘‘ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح) ’’کہ اللہ کی بندگی کرو‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘ چنانچہ اللہ کی بندگی اختیار کرنے اور نبی کی اطاعت کا قلادہ گردن میں ڈالنے کی دعوت ہی ہرنبی کی مرکزی دعوت رہی ہے.