مندرجہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ’’عبادتِ ربّ‘‘ قرآن مجید کی بڑی ہی بنیادی اور مرکزی اصطلاح ہے‘ اور پورے قرآن حکیم کی دعوت کا خلاصہ اسی ایک لفظ ’’عبادت‘‘ میں پنہاں ہے. چنانچہ قرآن مجید کی دعوت کا فہم اسی لفظ ’’عبادت‘‘ کے صحیح فہم پر منحصر ہے ‘اور اسی سے تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام کی اس متفقہ دعوت کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس کی طرف وہ اپنے اپنے اَدوار میں اپنی قوموں کو بلاتے رہے‘ اور جسے پورے عالمِ انسانی کے لیے خاتم النبیین والمرسلین محمد رسول اللہ لے کر مبعوث ہوئے. عبادتِ ربّ کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مفہوم کی وضاحت کے لیے قرآن حکیم کے متعدد مقامات سے مدد لی جا سکتی ہے. مثال کے طور پر سورۃ البینہ کی آیت ۵ کا مطالعہ فرمائیے:

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵
’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں‘ اپنی اطاعت کو صرف اس کے لیے خالص کر کے‘ بالکل یکسو ہو کر‘ اور نماز قائم کریں`اور زکو ٰۃ ادا کریں ‘اور یہی (طرزِعمل) نہایت صحیح و درست دین (نظامِ زندگی) ہے.‘‘

اس آیۂ مبارکہ کے مطالب و مفاہیم کے ضمن میں مَیں چاہتا ہوں کہ آپ دو باتیں نوٹ فرما لیں. پہلی بات تو اس سورۂ مبارکہ کا نام ہے جس میں یہ آیت وارد ہوئی‘ اور دوسری بات وہ سلسلۂ کلام ہے جس میں یہ آیت نازل ہوئی. اس سورۂ مبارکہ کا نام ’’البیّنۃ‘‘ ہے‘ جس کے معنی ہیں ’’روشن اور واضح دلیل‘‘. اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سورۂ مبارکہ کے مضامین روزِ روشن کی طرح عیاں اور سورج کی طرح تابناک ہیں. جس طرح ’’ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ کے مصداق سورج کے وجود کے لیے کسی خارجی دلیل کی حاجت نہیں‘ اسی طرح اس سورت کے مضامین خود اپنے مطالب و مفاہیم ادا کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں. پچھلی آیات سے اس آیۂ مبارکہ کا ربط و تعلق یہ ہے کہ اہلِ کتاب اور مشرکین اپنے کفر و ضلالت میں اتنے آگے نکل گئے تھے کہ اب ان کا خود اپنے محرف صحیفوں سے اور خود اپنی عقل سے راہِ ہدایت پا لینا ممکن نہ تھا.

لہذا ضروری ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول ان کے پاس دلیلِ روشن اور پاکیزہ صحیفے کے ساتھ بھیجا جائے‘ جو اُن کے سامنے پچھلی تمام کتبِ صادقہ کی اصل دعوت کو ازسرِنو پیش کرے‘ انہیں آیاتِ الٰہی کی تلاوت کر کے سنائے اور کفر و شرک کی ہر صورت کا غلط اور خلافِ حق ہونا ان کو سمجھائے. سورۂ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں اس اسلوبِ بیان میں نبی اکرم کی بعثت کی غایت بیان فرمائی گئی. پھر اس بات کو کھولا گیا کہ ان اہل کتاب کی تفرقہ بازی اس لیے نہیں تھی کہ ان تک صحیح علم نہیں پہنچا تھا‘ بلکہ دلیل روشن آ جانے کے بعد ان کا یہ تفرقہ‘ ان کا حق سے اعراض اور ان کی بداعمالیاں محض ہوائے نفس کی پیروی کا نتیجہ ہیں. وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کا ہر نبی اور رسول عبادتِ ربّ کی دعوت لے کر آیا تھا اور آیا کرتا ہے‘اور انہیں اس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں‘ یکسو ہو کر اپنی اطاعت کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں‘ نماز قائم کریں اور زکو ٰۃ ادا کریں ‘اور یہی دراصل دین قیم ہے! َ

غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا علیحدہ حکم ہے اور اقامت ِصلوٰۃ اور ایتائے زکو ٰۃ کا علیحدہ. اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان فرض عبادات سے علیحدہ ایک ’’عبادت‘‘ انسان سے مطلوب ہے. اس عبادت کو لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ کے الفاظ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ عبادت اس رویے اور اس طرزِعمل کا نام ہے کہ انسان یکسو ہو کر اپنی پوری زندگی کو مخلصانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں دے دے. اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ اور ہر زاویہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہو. نظامِ اخلاق‘ نظامِ معیشت‘ نظامِ معاشرت‘ نظامِ سیاست‘ نظامِ عدل‘ نظامِ صلح و جنگ اور نظامِ حکومت‘ غرضیکہ پورا نظامِ زندگی اس ضابطے اور اس ہدایت کے تحت اُستوار ہو جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و رُسل علیہم السلام کے توسط سے بنی نوعِ انسان کی فلاحِ دُنیوی اور نجاتِ اُخروی کے لیے عطا فرماتا ہے. البتہ جہاں تک اقامت ِصلوٰۃ‘ ایتائے زکوٰۃ اور دوسری فرض عبادات کا اس عبادتِ ربّ سے تعلق کا معاملہ ہے وہ اِن شاء اللہ بعد میں بیان کیا جائے گا.