لغوی اعتبار سے لفظ ’’عبادت‘‘ کسی کے سامنے مطیع و منقاد ہو جانے کے لیے آتا ہے. اس کا مفہوم کسی کے سامنے جھک جانا‘ پست ہو جانا اور بالکل بچھ جانا ہے. چنانچہ عربی میں ’’اَلطَّرِیْقُ الْمُعَـبَّدُ‘‘اُس راستے کو کہتے ہیں جو مسلسل چلتے رہنے کی وجہ سے خوب پائمال ہو کر بالکل ہموار ہو گیا ہو اور اس میں کوئی اونچائی نیچائی نہ رہی ہو. اسی طرح اگر کسی جانور کو خوب سدھا لیا جائے اور اس کی تربیت اس طور سے ہو جائے کہ وہ اپنے مالک کا ہر حکم ماننے لگے‘ محض اشارے یا لگام کی ذرا سی حرکت سے وہ سمجھ لے کہ میرا مالک کیا چاہتا ہے‘ مجھے کدھر مڑنا چاہیے‘ مجھے اپنی رفتار تیز کرنی چاہیے یا ہلکی رکھنی چاہیے تو اس کے لیے بھی عربی میں یہی لفظ ’’مُعَـبَّد‘‘ مستعمل ہے. چنانچہ ’’اَلْبَعِیْرُ الْمُعَبَّدُ‘‘ اس اونٹ کو کہتے ہیں جسے خوب سدھا لیا گیا ہو اور جو پورے طور پر اپنے مالک کا مطیع ہو کر اس کے اشاروں پر حرکت کرنے لگا ہو. ابوحیان اندلسی نے ’’عبادت‘‘ کے ان تمام مفاہیم کا استقصاء کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’اَلْعِبَادَۃُ التَّذَلُّـلُ قَالَــہُ الْجَمْھُوْرُ‘‘ یعنی اس پر تقریباً اجماع ہے کہ عبادت کا اصل مفہوم ’’تذلل‘‘ یعنی کسی کے سامنے پست ہو جانا‘ کسی کے سامنے جھک جانا‘ یا کسی کے سامنے بچھ جانا ہے. ہماری اردو زبان کے لحاظ سے ’’بچھ جانا‘‘ اصل مفہوم سے قریب ترین ہو گا. چنانچہ کسی کا مطیع فرمان ہو جانا اور خود کو اس کے سامنے بچھا دینا اصل میں عبادت ہے.

بعض اوقات کسی کی اطاعت مجبوری کے تحت اور اپنی مرضی کے خلاف بھی ہو سکتی ہے. ایسی اطاعت پر بھی اس لفظ عبادت کا اطلاق ہو تا ہے . چنانچہ قرآن مجید نے مصر میں بنی اسرائیل کی محکومی اور اطاعت کی جو کیفیت بیان کی ہے کہ فرعون اور قبطیوں نے ان کو اپنا غلام بنا رکھا تھا‘ وہ ان پر حکمران ہو گئے تھے اور ان کو اپنا مملوک سمجھنے لگے تھے‘ اس مفہوم کی تعبیر کے لیے یہی لفظ ’’عبادت‘‘ استعمال کیا ہے. سورۃ الشعراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل ہوا ہے جو انہوں نے فرعون سے مخاطب ہو کر کہا تھا: اَنۡ عَبَّدۡتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۲۲﴾ کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام اور محکوم بنا لیا ہے‘ اپنا مطیع کر لیا ہے‘ تو خود کو اُن کا مالک سمجھ بیٹھا ہے! اور پھر یہی لفظ ایک موقع پر خود فرعون نے بھی استعمال کیا. جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر اس کو بندگی ٔربّ کی دعوت دی تو اس نے بڑے طنزاور استحقار کے انداز میں کہا تھا کہ یہ لوگ ہمیں دعوت دینے‘ تبلیغ کرنے اور نصیحت کرنے چلے آئے ہیں‘ درآں حالیکہ: وَ قَوۡمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾ (المؤمنون) یہ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو ہماری محکوم ہے‘ جو ہماری مطیع اور غلام ہے‘ جس پر ہمیں کلی اختیار حاصل ہے. لہذا لغوی اعتبار سے عبادت کا لفظ مجرد اطاعت کے لیے بھی آتا ہے‘ چاہے اس میں اطاعت کرنے والے کی اپنی مرضی اور خواہش کا دخل نہ ہو.