یہی لفظ ’’عبادت‘‘ جب اپنی لغوی اصل سے اُٹھ کر ہمارے دین کی ایک اصطلاح بنتا ہے تو ’’اطاعت‘‘ کے ساتھ ساتھ اس میں ایک دوسرا جزو لازماً شامل ہو جاتا ہے ‘اور وہ ہے ’’محبت اور شوق کا جذبہ‘‘. لہٰذا عبادت کا حقیقی مفہوم یہ ہو گاکہ شوق اور محبت کے جذبے کے ساتھ کسی کے سامنے اپنے آپ کو بچھا دینا. چنانچہ علامہ ابن تیمیہؒ نے اس لفظ کی تعریف اس طرح کی ہے:

’’لفظُ العبُـوْدِیّۃ یَتَضَمَّنُ کَمَالَ الذُّلِّ وَکَمَالَ الْحُبِّ‘‘

یعنی اس لفظ عبودیت میں دو چیزیں لازمی طور پر شامل ہیں: ایک طرف تو ’’کمالِ ذ ُل‘‘ ہو انسان نے اپنے آپ کو پورے طور پر اللہ کے سامنے بچھا دیا ہو‘ گرا دیا ہو‘ پست کر دیا ہو اور وہ خود اپنی مرضی سے اللہ کی مرضی کے حق میں دست بردار ہو گیا ہو اور دوسری طرف اس کا جزوِ لازم ’’ کمالِ حُبّ‘‘ ہے‘ کہ اللہ کے سامنے یہ جھکنا اور یہ اطاعت و تسلیم کمالِ محبت و شوق اور دل کی پوری آمادگی اور رغبت کے ساتھ ہو. اگر کوئی مجبور ہو کر اطاعت کر رہا ہو تو یہ اصل میں روح ِعبادت سے خالی ہو گی. امام ابن القیمؒ نے اسے ان الفاظ میں مزید واضح کیا ہے:

’’اَلْعِبَادَۃُ تَجْمَعُ اَصْلَیْنِ : غَایَۃَ الْحُبِّ مَعَ غَایَۃِ الذُلِّ وَالْخُضُوْعِ‘‘

یعنی عبادت میں دو چیزیں لازماً شامل ہوں گی‘ اور وہ یہ کہ ایک طرف انتہائی درجے کی محبت‘ شوق‘ رغبت اور دل کی آمادگی ہو‘ اور دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ غایت`درجے کا تذلل اور خضوع بھی موجود ہو. چنانچہ ان کے نزدیک کمالِ محبت و شوق اوررغبت کے ساتھ اللہ کے آگے خود کو بچھا دینا اور پست کر دینا ہی اصل روح ِعبادت ہے.

عبادت کا یہ اصطلاحی مفہوم سمجھ لینے کے بعد اب قرآن مجید کی دعوتِ عبادت پر دوبارہ توجہ مرتکز کیجیے. یٰٓــاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ کا مفہوم یہ ہو گا کہ اے انسانو! اے بنی نوعِ آدم! جھک جاؤ‘ پست ہو جاؤ‘ اپنے آپ کو بچھا دو کمالِ محبت اور کمالِ شوق و رغبت کے ساتھ اُس ہستی کے سامنے جو تمہارا ربّ ہے اور وہی تمہارا خالق اور پیدا کرنے والا بھی ہے. یعنی تمہارا پالنے والا وہی ہے جو تمہارا موجد ہے. جس نے تم کو وجود بخشا ہے‘ وہی اس وجود کی تمام ضروریات فراہم کرنے والا اور اس کی کفالت کرنے والا ہے.