عبادت کے اس حقیقی مفہوم کو ذہن میں رکھ کر سوچیے کہ ہمارے ہاں اس لفظِ عبادت کا حلیہ کس طرح بگڑا ہے. ہمارے ہاں دینی تصورات جس طرح محدود اور بعض حلقوں میں جس قدر مسخ ہوئے ہیں‘ اس کا سب سے زیادہ نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہم نے ’’عبادت‘‘ کو صرف چند اعمال اور مراسمِ عبودیت کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے اور بس ان ہی کی ادائیگی پر عبادت کو منحصر سمجھ لیا ہے‘ جبکہ بقیہ زندگی اس سے بالکل خالی ہے. ہمارے عوام الناس کے ذہنوں میں عبادت کا یہ تصور صدیوں کے انحطاط کے بعد راسخ ہو ا ہے کہ بس نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ ہی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں.

بلاشبہ یہ سب عبادات ہیں‘ لیکن جب عبادت کو انہی میں منحصر کر لیا جائے گا اور یہ سمجھ لیا جائے گا کہ بس ان کو ادا کرنے سے عبادت کا حق ادا ہو گیا تو تصورِدین محدود (limited) ہی نہیں‘ مسخ(perverted) ہو جائے گا ‘اور یہ تصور اُس وقت تک صحیح اور درست نہیں ہو گا جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ عبادت پوری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے سامنے بچھ جانے کا نام ہے. عبادت اس طرزِعمل کا نام ہے کہ کمالِ محبت و شوق اور دل کی پوری آمادگی کے ساتھ زندگی کے ہر معاملے اور ہر گوشے کو اللہ کے حکم کا مطیع بنا دینا اور اپنی آزادی‘ اپنی خودمختاری‘ اپنی مرضی‘ اپنی چاہت اور اپنی پسند اور ناپسند کو اللہ کی مرضی اور رضا کا تابع بنا دینا‘ زندگی کے تمام افعال و اعمال میں ؏ ’’سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ‘‘ کا رویہ اختیار کرنا اور پوری زندگی کا اس رُخ پر ڈھل جانا .عبادت نماز‘ روزہ‘ حج و زکوٰۃ میں محدود و منحصر نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو وہ اعمال ہیں جو پوری زندگی کو خدا کی بندگی اور غلامی میں دینے کے لیے انسان کو تیار کرتے ہیں اور حقیقی عبادت کی ادائیگی میں اس کے ممد و معاون بنتے ہیں. ان کے ذریعے انسان میں وہ قوتیں اور صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اس روش کو اختیار کر سکے جس کا نام ’’عبادت‘‘ ہے.