خوش قسمتی سے اِس دَور میں عبادت کا ایک وسیع تر تصور پیدا ہوا ہے اور بہت سے اہلِ قلم حضرات کی کاوشوں اور کوششوں کے نتیجے میں اب یہ بات پڑھے لکھے طبقے کی اچھی خاصی تعداد کے سامنے واضح ہو چکی ہے کہ عبادت پوری زندگی میں کامل اطاعت کا نام ہے‘ اور پوری زندگی میں خدا کے حکم کو ماننا اور زندگی کے تمام گوشوں میں قانونِ خداوندی کی اطاعت کرنا عبادت کا تقاضا ہے. لیکن بدقسمتی سے اس طبقے کے تصورِ عبادت کے اندر بھی ایک محدودیت موجود ہے اور وہ یہ کہ ان کے ہاں عبادت کے ایک جزو یعنی کامل اطاعت پر تو پورا زور (emphasis) موجود ہے‘ لیکن اس کی روحِ حقیقی یعنی کمالِ شوق‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی محبت کا تعلق‘ کمالِ رغبت اور دل کی پوری آمادگی جیسی ارفع و اعلیٰ منازل نگاہوں سے اوجھل ہیں. حقیقت یہ ہے کہ عبادت کی اس روح ِحقیقی کے بغیر محض اطاعت کو اگر پوری زندگی پر بھی پھیلا دیا گیا ہو تو بھی عبادت کا حق ادا نہیں ہو گا. اس کے لیے کامل اطاعت کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ اُنس‘ دلی لگاؤ اور شوق و رغبت بھی لازمی ہے. علامہ اقبال مرحوم نے اپنے اس شعر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے: ؎

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب!
(۱)