عبادت کی روحِ حقیقی ’’محبت ِ خداوندی‘‘ کو قرآن حکیم میں بہت زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسے ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا ہے. ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (۱) عبادت کے اس مفہوم کو ماہر القادر ی مرحوم نے ان الفاظ میں شعر کا جامہ پہنایا ہے : ؎

جو سجدے میں دل بھی جھکے گا نہ ماہر
وہ کچھ اور شے ہے‘ عبادت نہ ہو گی!

(مرتب) وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵)
’’اور جو لوگ ایمان لائے وہ سب سے زیادہ محبت اللہ سے کرتے ہیں.‘‘

اس آیت کے پہلے حصے میں فرمایا:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ 
’’اور لوگوں میں بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو اس کا مدّمقابل بنا لیا ہے ‘وہ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے.‘‘

یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ میں کاف (کَ) حرفِ تشبیہہ ہے. اسے ذہن میں رکھ کر اگر ہم اپنی اصل کیفیت پر غور کریں تو معلوم ہو گاکہ وہ تو اس سے بھی بدتر ہے‘کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسری ہستیوں اور نظریات و خیالات کو خدا جیسا ہی نہیں بلکہ اُس سے بھی زیادہ محبوب بنا لیا ہے‘ ہم نے خدا کی محبت کو مؤخر کر دیا ہے اور دنیا کی محبت عملی طور پر ہمارے لیے مقدّم ہو گئی ہے. ہم نے علائقِ دُنیوی کی محبت کو اللہ کی محبت پر غالب کر دیا ہے. ہماری کیفیت تو وہ ہے جو سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴ میںبیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دینے کی وعید سنائی ہے. آیۂ مبارکہ کے الفاظ ہیں:

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴
’’(اے نبی ! ان سے صاف صاف) کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں اپنے باپ‘ اپنے بیٹے‘ اپنے بھائی‘ اپنی بیویاں‘ اپنے رشتہ دار‘ اپنے وہ مال جو تم نے (بڑی محنتوں سے) جمع کیے ہیں‘ اپنے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خدشہ ہے اور اپنے وہ مکان جو تمہیں بہت پسند ہیں‘ اللہ اُس کے رسولؐ اور اُس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر منتظر رہو‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے .اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں فی الواقع ہمارا نقشہ اور ہماری تصویر موجود ہے. سورۃ الانبیاء میں قرآن حکیم کے بارے میں فرمایا گیا: فِیْہِ ذِکْرُکُمْ کہ اس قرآن میں تمہارا ذکر موجودہے. چنانچہ ہر شخص قرآن کے اس ابدی و دائمی آئینے میں اپنی سیرت کے خدوخال کو نمایاں طور پر دیکھ سکتا ہے. ’’فِیْہِ ذِکْرُکُمْ‘‘ کے الفاظ میں یہ حقیقت مضمر ہے کہ ہماری تمام صلاحیتوں اور ہماری ساری دوڑدھوپ کی نقشہ کشی اس کتابِ مبین میں کر دی گئی ہے. تو اصلاً ہمارا حال یہ ہے جو اِس آیۂ مبارکہ میں بیان کیا گیا. حالانکہ اہل ایمان کا حال تو وہ ہونا چاہیے جو سورۃ البقرۃ کی محولہ بالا آیت میں بیان ہوا کہ: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُـبًّا لِّـلّٰہِیعنی جو لوگ واقعتا ایمان سے بہرہ ور ہیں‘ جنہیں ایمان سے حصہ مل گیا ہے‘ جنہیں ایمان کی حلاوت حاصل ہو گئی ہے‘ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت میں انتہائی شدید اور سخت ہیں. ان کی زندگی میں اللہ کی محبت ہر چیز پر غالب آ گئی ہے. تمام علائقِ دُنیوی کی محبت نیچے ہے اور اللہ کی محبت اس پر غالب ہے. تو اللہ کی محبت ایمان کے لوازم میں سے ہے. بلکہ صرف اللہ ہی کی نہیں‘ اللہ کے رسول کی محبت بھی جب تک تمام علائق دُنیوی پر غالب نہ ہو جائے تب تک ایمان معتبر نہیں ہے. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی نبی اکرم کا ارشادِ گرامی ہے:

لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اپنے والدین سے‘ اپنی اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں.‘‘

قرآن و حدیث کی روشنی میں محبت ِخداوندی اور محبت ِرسول کا مقام و مرتبہ اور ’’عبادتِ ربّ‘‘ کا حقیقی مفہوم آپ پر اچھی طرح واضح ہو گیا ہو گا.ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’عبادتِ ربّ‘‘ کے حقیقی تصور کو عام کیا جائے. جن حضرات کے ذہنوں میں یہ تصور واضح ہو جائے وہ اسے مزید آگے پھیلائیں اور عوام الناس کو آگاہ کریں کہ عبادت (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب حب الرسول من الایمان.وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب وجوب محبۃ رسول اللہ اکثر من الاھل والوالد والولد. (الفاظ کی ذرا تقدیم و تاخیر سے) سے محض نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ مراد لے لینا اور باقی زندگی کو اس سے خارج سمجھنا عبادت کا بڑا ہی غلط تصور ہے. عبادت تو اصلاً یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں بسر ہو اور زندگی کا کوئی گوشہ اس سے آزاد نہ رہے.

نہ صرف یہ کہ ہماری گھر کی زندگی اور بازار کی زندگی اللہ کی کامل اطاعت کا نمونہ نظر آئے‘ بلکہ قومی اورریاستی سطح کے تمام ادارے اور حکومت کے تمام شعبے جب تک قانونِ خداوندی کے پابند نہ ہو جائیں اس وقت تک عبادت کا حقیقی تقاضا ادا نہیں ہوتا اور اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّــۃً (البقرۃ:۲۰۸’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘کے قرآنی حکم کی تعمیل نہیں ہوتی اس کے بعد اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مجرد اطاعت نہیں‘ بلکہ وہ اطاعت مطلوب ہے جو اپنے ساتھ محبت کی چاشنی لیے ہوئے ہو‘ جس کے اندر دل کی گھلاوٹ شامل ہو‘ جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ذاتی تعلق اور ذاتی محبت کا رشتہ موجود ہو. انسان اگر مجبور ہو کر کسی کا مطیع ہو جائے یا اضطراری طور پر کسی کی محکومی قبول کر لے تو یہ صورت اطاعت تو کہلائے گی لیکن عبادت نہیں کہلائے گی. عبادت کا تقاضا اسی وقت پورا ہو گا جب اطاعت کے ساتھ انتہائی محبت‘ انتہائی شوق‘ انتہائی رغبت اور دل کی پوری آمادگی شامل ہو گی. اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے یہی اصل روحِ دین ہے ‘اور بدقسمتی سے اسی کی کمی ہے اُن مساعی اور کوششوں میں جو ہمارے ملک میں یا چند دوسرے اسلامی ممالک میں دین اسلام کے احیاء اور اس کی نشأۃِ ثانیہ (renaissance) کے لیے ہو رہی ہیں.

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عصرِحاضر میں ہمارے ہاں افکار و نظریات کی ایک تعمیر نو ہو رہی ہے‘ اور دینی تصورات کسی حد تک دوبارہ اپنی اصل حقیقت کی طرف رجوع کر رہے ہیں. ہم جب زوال پذیر ہوئے تو پستی کی انتہا کو پہنچے‘ یہاں تک کہ ہمارے دینی تصورات بھی مسخ ہوئے لیکن رفتہ رفتہ تعمیر نو ہو رہی ہے ‘اور بہرحال یہ بات انتہائی قابلِ تعریف اور قابلِ قدر ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عبادت کا اصل مفہوم پوری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نام ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اصل کام یعنی روحِ دین کی تجدید اور اس کا احیاء ابھی باقی ہے. روحِ دین اصل میں نام ہے اللہ کے ساتھ ایک ذاتی تعلق‘ ذاتی محبت اور ذاتی اُنس کا. جب تک دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا کامل یقین اور اس کے ساتھ قلبی محبت کا تعلق نہیں ہوتا ‘اور اس یقین اور محبت کے نتیجے میں اللہ کی ذات محبوب ترین نہیں ہو جاتی‘ اس وقت تک گویا اصل روحِ دین موجود نہیں ہے. گویا بس ایک ڈھانچہ ہے جو کھڑا ہو گیا ہے‘ جس کے اندر ابھی روح نہیں پھونکی گئی .اور اطاعت کلی اسی وقت عبادت قرار پائے گی جب اس کے اندر ذاتی محبت کا عنصر شامل ہو گا.