عبادت کا تصور محدود ہونے ہی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ روح ِدین نگاہوں سے اوجھل ہو گئی‘ نتیجتاً ساری توجہ ڈھانچے ہی پر مرکوز ہو کر رہ گئی. اور اب اس ڈھانچے کی اہمیت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ذرا ذرا سے فرق سے مستقل گروہ بندیاں ہو گئیں‘ مختلف مسلک بن گئے اور مستقل طور پر طے ہو گیا کہ یہ مسجد فلاں مسلک والوں کی ہے اور وہ فلاں مسلک والوں کی ہے .اور اختلاف یا فرق کیا ہے؟ مجرد یہ کہ کسی نے ہاتھ سینے پر باندھ لیے اور کسی نے ذرا نیچے‘ کسی نے آمین زور سے کہی اور کسی نے آہستہ‘ کسی نے رفع یدین کیا اور کسی نے نہیں کیا. حالانکہ دین میں ان سب کی اجازت موجود ہے‘ لیکن ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان چیزوں کی بنیاد پر ؏ ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ کی نوبت آ جاتی ہے. دین میں جن چیزوں کی حیثیت فروعی اور ثانوی‘ بلکہ اس سے بھی کمتر ہے‘ ان کو مقدم ترین سمجھ لیا گیا ہے. وجہ کیا ہے؟ یہی کہ اصل روح دین سامنے نہیں ہے. یہ تو یاد ہی نہیں کہ نماز کی اصل روح ’’اِسْتِحْضَارُ اللّٰہِ فِی الْقَلْبِ‘‘ یعنی ’’دل میں اللہ کی یاد‘‘ ہے‘ اس کی اصل جان خشوع اور خضوع یعنی عاجزی کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جانا ہے. جیسا کہ سورۃ المو ٔمنون کے آغاز میں فرمایا گیا:

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲
’’بلاشبہ فلاح پا گئے وہ ایمان والے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں.‘‘
ت
و جب تک یہ خشوع موجود نہ ہو اُس وقت تک نماز کا حق ادا نہیں ہوتا. ؏ ’’عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصورات‘‘ کے مصداق اگر خدا کی محبت ِذاتی قلب میں موجود نہ ہو تو سارے قوانین اور ضابطے محض ایک بے روح ڈھانچے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.