اب تک کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ عبادت اصل میں اللہ کے حضور تذلّل‘ عاجزی‘ جھک جانے‘ پست ہو جانے اور بچھ جانے کا نام ہے. اور اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ یہ زندگی کے کسی ایک گوشے میں محدود نہ ہو‘ بلکہ پوری زندگی پر محیط ہو. اس بات کو مزید اچھی طرح سمجھنے کے لیے سورۃ المو ٔمن کی اس آیت ِ مبارکہ پر توجہ فرمایئے ‘ جس میں ’’عبادت‘‘ کے متضاد کے طور پر لفظ ’’اِستکبار‘‘ وارد ہوا ہے:

وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰
’’اور تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ مجھ کو پکارو‘ میں تمہاری درخواست قبول کروں گا. یقینا جو لوگ میری عبادت سے سرتابی اور سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے.‘‘

معلوم ہوا کہ عبادت کا تقابل اور اس کی ضد (antonym) استکبار‘ گھمنڈ‘ سرتابی‘ سرکشی‘ خودرائی اور اپنی مرضی پر چلنا ہے. اور عربی مقولہ ’’تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ کے مصداق عبادت کی حقیقت ان الفاظ کے ذریعے سمجھی جا سکتی ہے جو اس کی ضد کے طور پر استعمال ہوئے ہیں. یعنی عبادت کی ضد یہ طرزِعمل ہے کہ خدا کی مرضی کے مقابلے میں اپنی مرضی اور خدا کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کے حکم کو ترجیح دی جائے. اس طرزِعمل کو قرآن حکیم میں اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا لینے سے تعبیر کیا گیا ہے. سورۃ الفرقان میں الفاظ وارد ہوئے ہیں:

اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ (آیت ۴۳’’ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘
ایسا شخص گویا خدا کے بجائے اپنے نفس کی عبادت کر رہا ہے. خدا کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی یا زمانے کے چلن اور معاشرے کے رسم و رواج کی تقلید کرنا در حقیقت عبادت کی ضد ہے.