عبادت کے ضمن میں قرآن حکیم میں یہ مضمون بھی صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ عبادت خالصتاً اللہ کے لیے ہونی چاہیے. چنانچہ سورۃ الزمر میں فرمایا:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ (آیات ۲۳)
’’(اے نبیؐ !) ہم نے حق کے ساتھ اس کتاب کو آپ کی طرف نازل کیا ہے‘ پس آپ اللہ کی بندگی کیجیے‘ پوری اطاعت اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے! یاد رکھو کہ خالص اطاعت بس اللہ ہی کے لیے ہے.‘‘
پھر اسی سورت میں آگے چل کر فرمایا:

قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ﴿ۙ۱۱
’’(اے نبی !) کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ ساری اطاعت صرف اسی کے لیے خالص ہو جائے.‘‘

جیسا کہ میں پوری تفصیل سے عرض کر چکا ہوں کہ دین کی رو سے اس اطاعت و فرماں برداری میں شوق و محبت‘ جی کی رغبت اور دل کی پوری آمادگی شرطِ لازم ہے. تذلل اور محبت دونوں مل کر عبادت کا تقاضا پورا کرتی ہیں. خدا کی اطاعت اس طرز کی اطاعت نہیں ہے کہ جیسے کسی جابر اور قاہر کی اطاعت طوعاً و کرہاً کی جاتی ہے‘ بلکہ یہ اطاعت انتہائی مشفق اور وَدُود ہستی کی اطاعت ہے‘ یہ الرحمن اور الرحیم کی اطاعت ہے‘ الرؤف اور الکریم کی اطاعت ہے‘ جو ہم سے بڑھ کر ہمارا خیرخواہ ہے. ہم اپنے آپ سے وہ محبت نہیں کر سکتے جو محبت وہ ہم سے کرتا ہے. ہم اپنے خیر اور شر کو نہیں جانتے اور اس میں تمیز نہیں کر سکتے‘ لیکن وہ اسے خوب جانتا اور پہچانتا ہے. ہم اپنی مصلحتوں سے آگاہ نہیں‘ لیکن وہ جانتا ہے کہ کس چیز اور کس کام میں ہماری مصلحت ہے. اس تصور اور شعور کے ساتھ خدا کے سامنے بچھ جانا اور اپنی پوری زندگی کو بطیبِ خاطر اس کے قانون کی پابندی اور اطاعت میں دے دینا‘یہ ہو گی وہ اطاعت جسے قرآن حکیم ’’عبادت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور بنی نوعِ انسان کو جس کی دعوت دیتا ہے اور جو انسان کی تخلیق کی غرض و غایت ہے.