اللہ تعالیٰ کی صفت ِتخلیق و ربوبیت

آیۂ مبارکہ یٰٓـــاَیـُّـھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ میں اللہ تعالیٰ کی دوصفات بیان ہوئی ہیں:ایک اس کا ربّ ہونااور دوسرے اس کا خالق ہونا. درحقیقت یہ دو صفات ہی دعوتِ عبادتِ ربّ کی دلیلیں ہیں. یعنی وہی تمہارا خالق‘ تمہیں وجود بخشنے والا ہے اور وہی تمہارا پروردگار اور پالنہار بھی ہے‘ لہذا صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کی بندگی کی جائے. انسان نہ تو آپ سے آپ پیدا ہو گیا ہے اور نہ ہی وہ خود اپنا خالق ہے. 

سورۃ الطور میں فرمایا گیا: اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾ ’’کیا یہ یوں ہی آپ سے آپ پیدا ہو گئے یا انہوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے؟ ‘‘ معلوم ہوا کہ ہم نے خود اپنے آپ کو تو پیدا نہیں کیا‘ بلکہ ہم مخلوق ہیں. پس جو خالق ہے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ مخلوق پر اس کی مرضی چلے. یہی وہ بات ہے جو سورۃ الاعراف میں بایں الفاظ فرمائی گئی: اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُؕ (آیت ۵۴)’’خبردار ہو جاؤ! وہی خالق ہے اور اسی کی حکومت و فرماں روائی ہے‘‘. ظاہر ہے کہ عقل سلیم اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ اس کی بات مانی جائے‘ اس کا حکم مانا جائے‘ اس کی اطاعت کی جائے اور اسی کی مرضی چلے. آدمی خود اپنا خالق نہیں‘ یہاں تک کہ اس کے آباء و اجداد بھی اس کے خالق نہیں‘ وہ بھی مخلوق تھے. لہذا بجائے اس کے کہ بلاسوچے سمجھے آباء و اجداد کے طریقے کی پیروی کی جائے اور وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَـآءَنَا (یونس:۷۸’’ہم نے اسی طریقہ پر اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے‘‘ کو دلیل بنا کر آباء پرستی شروع کر دی جائے‘ اس ہستی کی بندگی اور پرستش کرنی چاہیے جو خالق ہے. اس لیے آیت مبارکہ میں آگے اضافہ فرما دیا کہ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَـبْلِکُمْ یعنی جو تم سے پہلے تھے ان سب کا خالق بھی وہی اللہ ہے جو تمہارا خالق ہے. ان کے طور طریقے اگر خدا کے حکم کے مطابق ہوں تب تو اُن کا اتباع کیا جائے گا‘ لیکن اگر ان کی روش اس کے برعکس ہو تو ان کو کوئی استناد حاصل نہیں. ان کا یہ حق ہرگز نہیں کہ ان کا اتباع کیا جائے‘ اس لیے کہ خالق سب کا اللہ ہے.

دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ صرف تمہارا خالق ہی نہیں‘ بلکہ وہ تمہارا ’’ربّ‘‘ بھی ہے. وہ تمہاری تمام ضروریات پوری کر رہا ہے. تمہیں درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہوئے اور ہر درجے کی تمام ضروریات کا اہتمام کرتے ہوئے تمہیں تمہارے مقامِ کمال کی طرف لے جا رہا ہے. ماں کے دل میں مامتا‘ باپ کے دل میں شفقت اور عزیزوں کے دل میں محبت اسی کی پیدا کردہ ہے. موسموں کا تغیر و تبدل‘ بارش کا یہ نظام‘ زمین میں روئیدگی اور نشوونما کی قوت اور اس پر تمہارے لیے نفع رساں چوپایوں کا وجود‘ یہ نظامِ شمسی اور اس میں موجود جذبِ باہمی‘ غرضیکہ یہ پورا نظام اس کی شانِ ربوبیت کا مظہر ہے. پس وہی تمہارا خالق ہے اور وہی تمہارا ربّ ہے.