یہاں ایک بات نوٹ کرنے کی ہے کہ قرآن مجید بالعموم ایسے مقامات پر ربوبیت کو خلق پر مقدّم کرتا ہے‘ حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے خلق ربوبیت پر مقدم ہے. پہلے پیدا کرنا اور وجود بخشنا ہے‘ پھر اس کی ربوبیت و تربیت ہے. یہ دَور اور مرحلہ خلق کے بعد شروع ہوتا ہے. لیکن قرآن حکیم کا عام اسلوب یہی ہے کہ وہ ربوبیت کو خلق پر مقدم کرتا ہے. چنانچہ نبی کریم: پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں بھی ربوبیت کو تخلیق پر مقدم کرتے ہوئے فرمایا گیا: اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾ (العلق) ’’(اے نبی !) پڑھیے اپنے ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا.‘‘ اسی طرح یہاں بھی ربّ کے تصور کو مقدم کیا گیا اور تخلیق کے تصور کو مو ٔخر کیا گیا اور فرمایا کہ : ’’اے لوگو! عبادت کرو اپنے اس ربّ کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو پیدا کیا جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں.‘‘ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھئے کہ ربوبیت کو تخلیق پر کیوں مقدم کیا گیا! انسان کے ذہن کا بچپن سے جو ارتقاء ہوتا ہے اگر ہم اس کا جائزہ لیں اور اس کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ذہن سب سے پہلے جس چیز کا اثر قبول کرتا ہے اور اس میں جو شعور و احساس سب سے پہلے اجاگر ہوتا ہے وہ ربوبیت ہی کا اثر اور احساس ہے.

ایک چھوٹے سے بچے کے ذہن کی کائنات بڑی ہی محدود ہوتی ہے‘ لیکن اپنے والدین کے بارے میں یہ تأثر (impression) بہرحال اس کے ذہن میں موجود ہوتا ہے کہ میری ہر ضرورت یہی فراہم کرتے ہیں. مجھے بھوک لگتی ہے تو غذا اور خوراک کا اہتمام کرتے ہیں‘ مجھے اگر کہیں سے کوئی خطرہ اور خوف لاحق ہو جائے تو مَیں لپک کر ان کی گود میں پناہ لے لیتا ہوں‘ لہذا یہ میرے محافظ بھی ہیں. گویا کہ ربوبیت کے تصور کے ساتھ جتنی چیزیں بھی وابستہ ہیں‘ ان کا تأثر اس کے ذہن کی محدود کائنات میں موجود رہتا ہے اور والدین کے لیے ایک جذبۂ تشکر اس کے دل میں ابھرتا رہتا ہے. اسی لیے قرآن حکیم نے سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے لیے یہی لفظ ’’ربوبیت‘‘ استعمال کیا ہے. آیت ۲۴ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ان کے لیے یہ دعا کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ: رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾ ’’اے میرے پروردگار! ان دونوں (والد اور والدہ) پر رحمت فرمائیے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی.‘‘ یہ ربوبیت کا تصور ہے جو انسان کے ذہن میں سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے.

آگے چل کر صرف یہ فرق واقع ہوتا ہے کہ جوں جوں اس کا افقِ ذہنی وسیع ہوتا ہے اور اس کی فکر کا دائرہ پھیلتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ والدین کے علاوہ مجھے اپنے بہن بھائیوں‘ اعزّہ و اقرباء اور برادری کی حمایت اور تحفظ بھی حاصل ہے. جب وہ اس سے بھی آگے بڑھتا ہے تو اس میں یہ شعور اجاگر ہوتا ہے کہ معاملہ صرف رشتہ داروں اور برادری تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ مجھے ایک پورے نظام کی پشت پناہی حاصل ہے‘ میری قوم اور میرا ملک میری پشت پر ہے. جب اس کا ذہن مزید ترقی کرتا ہے تو اس سے آگے جا کر انسان کے مادی علم کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ اس کی ربوبیت اور اس کی ضروریات کی فراہمی کا تو ایک بڑا ہی وسیع و عریض نظام ہے‘ اس میں سورج کا بھی دخل ہے اور ہواؤں کے چلنے‘ بارش کے برسنے اور موسموں کے تغیر و تبدل کو بھی ایک فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے. کائنات کا یہ پورا نظام اور اس کی ہر ہر چیز اس کی ربوبیت اور اس کی ضروریات کی کفالت کرنے میں لگی ہوئی ہے. گندم کا ایک دانہ جو زمین سے اُگتا ہے تو اس کو اُگانے میں نہ معلوم قدرت کی کتنی قوتیں بروئے کار آتی ہیں. یہ انسان کے مادی علم کا نقطۂ عروج (climax) ہے.

اس کے بعد انسان اگر ایک چھلانگ اور لگا لے تو یہ حقیقت اس پر منکشف ہو جاتی ہے کہ یہ سارا سلسلۂ اسباب ایک مسبّب الاسباب کے ہاتھ میں ہے‘ یہ سارا نظام جو نگاہوں کے سامنے ہے‘ ایک ایسی ہستی کے دستِ قدرت میں ہے جو نظر نہیں آ رہی. وہ ہمارے حواس اور ہماری قوتِ واہمہ سے بھی ماوراء ہے. لیکن وہ ہستی موجود ہے جو اس کائنات کی خالق بھی ہے‘ موجد بھی ہے‘ مدبر بھی ہے اور ربّ بھی ہے. اس کائنات کا سارا نظام اسی کے قانون میں جکڑا ہوا ہے اور اسی کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے. ’’اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ‘‘ کے مطابق عالمِ امر میں بھی اسی کا قولِ کُن کارفرما ہے اور عالمِ خلق بھی اسی کی تدبیر کا مرہونِ منت ہے. جب یہ حقیقت واضح ہو گئی تو معلوم ہوا کہ اب انسان کو ربوبیت کی معرفتِ تامہ حاصل ہو گئی. اب اس نے جان لیا کہ میرا ربّ‘ میرا پالنے والا‘ میرا روزی رساں اور میری ضروریات کا کفیل اللہ ہے‘ جو میرا خالق بھی ہے. قرآن حکیم میں ربوبیت کو خلق پر مقدم کرنے میں یہی رمز پوشیدہ ہے کہ انسان کو ربوبیت کا تصور پہلے حاصل ہوتا ہے.