عام طور پر جب ہم ’’ربّ‘‘ کی شرح کرتے ہیں تو بس ربوبیتِ جسمانی پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں‘ حالانکہ ربوبیت صرف جسم و جان کی ضروریات کی فراہمی تک محدود نہیں‘ بلکہ ربوبیت یہ ہے کہ ہمارا ربّ جس طرح ہمارے جسم و جان کی ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کر رہا ہے اسی طرح وہ روح و عقل کی رہنمائی کا بھی بندوبست کر رہا ہے. جس طرح وہ ہمارے وجودِ خاکی کے داعیات اور تقاضوں کے لیے اسباب و سامان فراہم کرتا ہے اسی طرح وہ ہمارے ملکوتی وجود یعنی روح کی بالیدگی اور رہنمائی کے لیے بھی انتظام کرتا ہے. رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ کے الفاظ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ میرا وہ ربّ جس پر میری ربوبیت موقوف ہے‘ وہی مجھے ہدایت دینے والا ہے‘ وہی راستہ دکھانے اور کھولنے والا ہے.

تو انسان جب یہ معرفت حاصل کر لیتا ہے کہ جس کی بارگاہ سے میری تمام مادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں میری عقل کی رہنمائی کا اہتمام اور میری روح کی تشنگی کی سیرابی کا انتظام و التزام بھی اسی کی طرف سے ہو گا ‘تو اسے قرآن مجید ’’حکمت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے. چنانچہ سورۂ لقمان میں فرمایا: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ (آیت ۱۲’’اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ شکر کر اللہ کا!‘‘ یعنی انہیں دانائی‘ سمجھ‘ عقل کی پختگی اور شعور کی گہرائی عطا کی گئی تھی جس کا نتیجہ شکرِ الٰہی ہے. چنانچہ عقل کی معرفت حاصل ہوتے ہی سارا جذبۂ شکر اللہ کی ذات کی طرف مرتکز ہو جائے گا. اسی حقیقت کا اظہار قرآن مجید کی پہلی آیت میں ہے : اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ کہ ساری تعریف‘ حمد و ثنا‘ اور شکر و سپاس کا سزاوار اور مستحق صرف وہ اللہ ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے.