یہ بات سمجھ لینے کے بعد کہ قرآن کی اصل دعوت عبادتِ ربّ ہے اور اس کی مخاطب کوئی ایک قوم‘ کوئی ایک گروہ یا کوئی ایک طبقہ نہیں‘ بلکہ علی الاطلاق پوری نوعِ انسانی ہے‘ ہمارے لیے غور کا اصل مقام یہ ہے کہ اس وقت اس دعوے کی امین اُمت مسلمہ ہے‘ جو بدقسمتی سے آج خود اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ وہ خود اس بات کی محتاج ہے کہ اس تک یہ دعوت پہنچائی جائے. نوعِ انسانی تک قرآن کی یہ دعوت پہنچانا اُمت ِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے‘ لیکن بجائے اس کے کہ ہم اس دعوت کو لے کر اٹھتے اور اپنے قول و عمل سے اسے نوعِ انسانی کے سامنے پیش کرتے ‘ہم پستی کی اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ سب سے پہلے ہم خود محتاج ہیں کہ ہم کو یہ دعوت پہنچائی جائے. چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم خود اس دعوت پر لبیک کہیں‘ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کریں اور پھر دنیا کے سامنے اس دعوت کے داعی بن کر کھڑے ہو جائیں.