عبادتِ ربّ اور اطاعت ِخالق میں سب سے بڑی رکاوٹ جو انسان کو درپیش ہوتی ہے ‘وہ غفلت‘ نسیان اور بھول ہے. انسان کا اپنے معمولات میں حد درجہ الجھ جانا اور منہمک ہو جانا‘ اور ان میں کولہو کے بیل کی طرح مصروف رہنا دراصل ایک ایسا چکر ہے جو انسان کو اپنے اندر گم کر لیتا ہے. اس لفظ ’’گم‘‘ سے میرا ذہن علامہ اقبال کے اس شعر کی طرف منتقل ہوا ہے کہ : ؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

تو انسان کی کیفیت عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول میں‘ اپنی ضروریات کی فراہمی میں اور اپنی پریشانیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے. کاروبار کی فکر‘ ملازمت کی فکر‘ کام کی فکر‘ اہل و عیال کی فکر‘ بچوں کے دکھ اور بیماری کی فکر‘ بچوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کی شادی بیاہ کی فکر اور نہ جانے کتنے تفکرات کے روگ ہیں جو انسان کو لاحق رہتے ہیں اور جن میں وہ گم ہو کر رہ جاتا ہے. اس گمشدگی کی حالت سے انسان کو نکالنے کے لیے نمازِ پنجگانہ کا نظام ہے. نماز انسان کو دن میں پانچ مرتبہ ان تمام مصروفیات سے کھینچ کر باہر نکالتی ہے.

اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاَقِمِ الصَّلٰـوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:۱۴’’اورنماز کو قائم کرو میری یاد کے لیے.‘‘ دن میں پانچ وقت اللہ کے حضور کھڑے ہو اور ہر رکعت میں اپنے اس عہد و میثاق کو تازہ کرو کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’(پروردگار!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں (اور کریں گے)‘ اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (اور مانگیں گے).‘‘ ہر رکعت میں اپنے اس قول و قرار کی ازسرنو تجدید کر کے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کر لو‘ اپنے بندہ ہونے کی حیثیت کو اپنے شعور میں اجاگر کر لو اور اس ہستی کو یاد رکھو جس سے تم نے یہ عہدِوفاداری استوار کیا ہے. نماز کا اصل مقصد ہی یادِ الٰہی ہے اور اسی یادِ الٰہی سے ان حقائق کی تذکیر ہوتی ہے جن کا نام ایمان ہے. پس نماز وہ فریضہ ہے جو انسان کو اس گمشدگی کی حالت سے دن میں پانچ بار نکالتی ہے اور اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ کسی کا غلام و بندہ ہے‘ کسی سے اس نے عہد اطاعت اور عہدوفا استوار کر رکھا ہے اور اسے اپنے تمام معمولات میں اس عہد و میثاق اور قول و قرار کی پابندی کرنی ہے.

زکو ٰۃ کی اہمیت

عبادتِ ربّ کے راستے کی دوسری سب سے بڑی رکاوٹ حبِّ مال ہے. یہ مال کی محبت ہی ہے جو انسان کے پیر کی بیڑی بن جاتی ہے. انسان کی نگاہوں پر جو سب سے بڑا پردہ پڑ جاتا ہے وہ دنیا کی محبت کا ہے‘ جس کا سب سے بڑا مظہر اور سب سے بڑی علامت (symbol) حبِّ مال ہے. آپ تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ حبِّ دنیا ’’حبِّ مال‘‘ ہی کا منطقی نتیجہ ہے‘ اس لیے کہ مال ہی وہ ذریعہ ہے جس سے آپ دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتے ہیں. شہرت‘ حشمت‘ وجاہت‘ عزت‘ منصب‘ اقتدار‘ غرضیکہ نفس کی ہر مطلوب شے مال کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے. شوکت و سطوت اسی کی لونڈیاں ہیں اور تعیش و راحت اسی کے غلام ہیں. گویا کہ دنیا اور مال لازم وملزوم ہیں. چنانچہ مال کی محبت کو کم کرنے اور اس کودل سے کھرچنے کے لیے زکو ٰۃ کا نظام تجویز کیا گیا کہ اپنے مالوں میں سے زکوۃ‘ صدقات اور خیرات نکالو اور انہیں اللہ کی خوشنودی کے لیے صرف کرو.

آنحضور سے فرمایا گیا: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ ُتزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ : ۱۰۳’’ ان کے اموال میں سے صدقات (واجبہ و نافلہ) وصول کیجیے کہ آپ اس کے ذریعے سے انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں.‘‘مال کی محبت کو دل سے نکالنے کا یہی ایک ذریعہ ہے. یہ مال ہی وہ چیز ہے جس کے لیے انسان حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرا لیتا ہے اور خدا کے احکام سے روگردانی کرتا ہے. چنانچہ حبِّ مال کے ازالے کے لیے علاج بالمثل تجویز کیا گیا کہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں! اس طرح حبِّ مال کی یہ نجاست دل سے دھلے گی اور تمہارا تزکیہ ہو گا.

روزے کی حکمت

عبادتِ ربّ کی تیسری بڑی رکاوٹ ہمارے نفس کی خواہشات اور اس کے کچھ داعیات ہیں‘ جو فی الاصل جائز خواہشات و داعیات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی بجائے خود گناہ نہیں. ہمیں زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کھانے کی ضرورت ہے‘ ہم پانی کے محتاج ہیں‘ اسی طرح بقاءِ نسل کے لیے انسان کے اندر جنسی جذبہ رکھا گیا ہے. یہ تمام چیزیں اپنی جگہ پر نہ صرف درست بلکہ ضروری ہیں. لیکن ان خواہشات و داعیات میں حدِ اعتدال سے تجاوز کا ایک مادہ موجود ہے اور جب یہ حدِاعتدال سے تجاوز کرتی ہیں تو تقاضا کرتی ہیں کہ اصل حکم ہمارا چلے گا‘ تمہارا یا تمہارے خدا کا نہیں. نفس کے اندر جب ہیجان پیدا ہوتا ہے اور جنسی جذبہ اشتعال میں آتا ہے تو نفس گویا یہ مطالبہ کرتا ہے کہ میرا یہ تقاضا لازماً پورا ہونا چاہیے‘ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ خدا کیا کہتا ہے‘ رسول کا کیا حکم ہے‘ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے! نفس کے اس مُنہ زور گھوڑے کو قابو میں کرنے کے لیے اور اس کے تقاضوں اور داعیوں کو ایک فطری حد تک محدود رکھنے کے لیے روزہ فرض کیا گیا. اس کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ (البقرۃ)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا فرض کر دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا ‘تاکہ تم بچ سکو!‘‘

خدا کے احکام کو توڑنے کی جسارت سے بچ سکو اور اس کی مقرر کردہ حدود کو پھلانگنے سے بچ سکو! تمہارے نفس کے جو بنیادی تقاضے تمہارے جسم میں ودیعت کیے گئے ہیں ان کو قابو میں کرنے کی استعداد اور قوت روزے کی عبادت سے پیدا ہو گی. روزے کی بدولت ان میں سے کوئی داعیہ بھی اتنا زورآور نہیں رہے گا کہ تم سے اپنی من مانی کرا سکے اور تم کو یہ بات بھلا دے کہ تم خدا کے بندے ہو اور خدا کے قانونِ حلال و حرام کے پابند ہو.

حج کی جامعیت

اب رہا حج‘ تو اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں وہ تمام چیزیں جمع ہوگئی ہیں جو ہمیں نماز‘ زکوٰۃ اور روزے سے حاصل ہوتی ہیں. اس میں یادِ الٰہی بھی ہے‘ وقتی طور پر علائق دُنیوی سے کٹ جانا بھی ہے‘ انفاقِ مال بھی ہے‘ جسمانی مشقت بھی ہے اور نفس کے تقاضوں کو ضبط میں رکھنے کی مشق بھی ہے. چنانچہ حج ایک انتہائی جامع عبادت ہے.
تو یہ چاروں عبادات انسان کو اس طرح تیار کرتی ہیں کہ وہ عبادتِ ربّ کے راستے پر گامزن ہو سکے جو اُس کی غرضِ تخلیق ہے اور وہ اپنے اس عہد پر قائم رہ سکے جو اُس نے دُنیا میں آنے سے قبل عالمِ ارواح میں کیا تھا‘ جو سورۃ الاعراف میں بایں الفاظ مذکور ہے: اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ (آیت ۱۷۲یعنی جب ربّ تعالیٰ نے تمام بنی نوعِ انسان سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟تو سب پکار اٹھے کہ کیوں نہیں‘ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ تو ہمارا ربّ ہے! اور جس عہد کی تجدید ہم پانچوں نمازوں کی ہر ہر رکعت میں کرتے ہیں اسی ربّ کی غلامی اور بندگی کی دعوت آیت زیرمطالعہ میں دی جا رہی ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ زندگی گزارنے کے اس طریقے پر اپنے آپ کو پوری طرح قائم رکھنے کے لیے ہمیں جن قوتوں کی ضرورت ہے ور اس کے موانع اور رکاوٹوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں جو طاقت درکار ہے وہ ان عبادات کے نظام کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے.

خلاصۂ کلام

آخر میں اس ساری بحث کا لُبِّ لباب اور خلاصہ ذہن نشین کر لیجیے کہ بنی نوعِ انسان کے نام قرآن کا اصل پیغام اور اس کی اصل دعوت ’’بندگی ٔربّ‘‘ کی دعوت ہے. یعنی انسان سے اس کی پوری زندگی میں کمالِ محبت و شوق کے ساتھ اللہ کی کامل اطاعت مطلوب ہے. عبادت محض نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ تک ہی محدود نہیں ہے‘ بلکہ یہ فرض عبادات پوری زندگی کو خدا کی غلامی اور بندگی میں دینے کے لیے انسان کو تیار کرتی ہیں. ’’عبادتِ ربّ‘‘ کا راستہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے. اس راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں اور hurdles موجود ہیں‘ بڑے بڑے لالچ اور ترغیبات اور بڑی خوشنما اور لذت بخش چیزیں انسان کو اس راہ سے روکتی اور اپنی طرف کھینچتی ہیں. ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے اور ان لالچ اور ترغیبات سے بچنے کے لیے دین کے نظام میں یہ عبادات تجویز کی گئی ہیں. نماز ذکر سے غفلت اور نسیان کا علاج ہے. زکوٰۃ دل سے مال کی محبت کو کھرچنے اور حبِّ دنیا کو کم کرنے کا ذریعہ ہے. روزہ نفس کے مُنہ زور گھوڑے کو لگام دینے اور اس کے تقاضوں اور داعیات کو حدِاعتدال پر رکھنے کی مشق کے لیے فرض کیا گیا ہے.

اور جیسے کہ عرض کیا گیا‘ حج ان تینوں عبادات کی جامع عبادت ہے‘ جس میں ان کے تمام فوائد جمع کر دیے گئے ہیں. اس میں ذکر بھی ہے‘ انفاقِ مال بھی ہے‘ نفس کے ساتھ رسہ کشی اور نظم و ضبط کی تربیت بھی ہے. جس طرح فوج کو ڈسپلن کا پابند اور خوگر بنانے کے لیے پریڈ کرائی جاتی ہے اسی طرح حج کی عبادت خدا کے سپاہیوں کو نظم و ضبط کا عادی بناتی ہے. یہ تمام عبادات انسان کو اصل عبادت کے لیے‘ جو اُس کی غایت ِتخلیق ہے‘ ہمہ وقت تیار کرتی رہتی ہیں. اگر یہ حقیقت بنیادی طور پر سمجھ میں آ جائے تو پھر اِن شاء اللہ دین کا پورا نقشہ واضح ہو جائے گا اور اس آیت کریمہ کا صحیح مفہوم سمجھ میں آ جائے گا :

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱
’’اے لوگو! بندگی کرو اپنے اس ربّ کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں‘ تاکہ تم (دنیا میں افراط و تفریط کے دھکے کھانے اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے دوچار ہونے سے) بچ جاؤ!‘‘
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات