اس اعتبار سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں درحقیقت اس اُمت کی غرضِ تأسیس بیان کی گئی ہے. یعنی یہ اُمت کیوں بپا کی جا رہی ہے‘ اس کا قیام کس لیے عمل میں لایا جا رہا ہے؟ چنانچہ فرمایا گیا:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ
’’اور اسی طرح ہم نے بنایا تم کو اُمت ِوسط (بہترین اُمت) تاکہ ہو جائو تم گواہ پوری نوعِ انسانی پر اور رسولؐ ہو جائیں گواہ تم پر.‘‘

اس آیتِ مبارکہ میں سب سے پہلا لفظ ’’کَذٰلِکَ‘‘ ہے جس کا ترجمہ ہو گا: ’’ایسے ہی‘‘ یا ’’اسی طرح‘‘ گویا کہ اس کلمہ ’’کَذٰلِکَ‘‘ نے اس اعلان کو تحویلِ قبلہ کی بحث کے ساتھ جوڑ دیا ہے. یعنی جو تحویلِ قبلہ کا حکم دیا جا رہا ہے اسے کوئی معمولی سا واقعہ نہ سمجھو. یہ تو درحقیقت اس بات کی علامت ہے کہ اب اُمت بنی اسرائیل کا وقت ختم ہوا‘ وہ معزول کر دیے گئے‘ ان کا قبلہ منسوخ کر دیا گیا اور اب اس قبلۂ ابراہیمی ؑکے گرد ایک نئی اُمت ‘اُمت ِمحمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی تأسیس و تشکیل ہو رہی ہے‘ جسے ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے. اس سے پہلے جو ذمہ داریاں بنی اسرائیل کے سپرد کی گئی تھیں وہ اب اس نئی اُمت کے سپرد کی جا رہی ہیں. ’’کَذٰلِکَ‘‘ کا مفہوم دراصل یہ ہے.