’’کَذٰلِکَ‘‘ کے بعد الفاظ ہیں: ’’جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا‘‘ (ہم نے تم کو بنایا درمیانی یا بہترین اُمت!) اس ٹکڑے میں سب سے پہلے لفظ ’’اُمت‘‘ پر غور کیجیے. مسلمانوں کی ہیئت ِ اجتماعیہ کے لیے قرآن مجید کی اصل اصطلاح ’’اُمت‘‘ ہے. پورے قرآن مجید میں مسلمانوں کی ہیئت ِاجتماعیہ کو ظاہر کرنے کے لیے کہیں بھی لفظ ’’قوم‘‘ استعمال نہیں کیا گیا. اسی طرح حدیث نبویؐ میں بھی مسلمان اُمت کے لیے ’’قوم‘‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا. قومیت کا جو تصور ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ قومیں یا تو نسل کی بنیاد پر بنتی ہیں یا علاقے‘ ملک‘ وطن اور زبان کی بنیاد پر. یہ وہ عوامل ہیں جن کو ایک قوم کے تشخص میں اساسی حیثیت حاصل ہوتی ہے. چنانچہ کسی خاص ملک کی حدود میں رہنے والے ایک علیحدہ قوم کہلاتے ہیں‘ کوئی ایک زبان بولنے والے ایک الگ قوم تصور کیے جاتے ہیں. لیکن قومیت کا یہ تصور ہمارے دین‘ ہماری تہذیب‘ ہمارے تمدن اور ہماری روایات سے بالکل متناقض ہے. قرآن و حدیث کی رو سے اس کا ہماری ہیئتِ اجتماعیہ سے قطعاً کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ہماری ہیئتِ اجتماعیہ کے لیے اس لفظ ’’قوم‘‘ کو سرے سے استعمال ہی نہیں کیا.
’’دعوتِ بندگی ٔ ربّ‘‘ کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے کہ تمام سابق انبیاء علیہم السلام کی دعوت اپنی اپنی قوم کے لیے تھی اور ان کا کلمۂ خطاب ’’یَا قَوْمِ‘‘ (اے میری قوم کے لوگو!) ہوتا تھا. لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے مخاطبین کے لیے قرآن حکیم میں ’ ’یَا قَوْمِ‘‘ کی بجائے ’’یٰٓــاَیـُّـھَا النَّاسُ‘‘ (اے بنی نوعِ انسان!) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں. گویا یہ قومیت سے ایک بلند تر منزل اور اس سے اعلیٰ و ارفع ایک مقام ہے کہ جہاں سے اب بات شروع کی جا رہی ہے. اور جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا ہے‘ جنہوں نے عبادتِ ربّ کے نظریہ کو تسلیم کر لیا ہے‘ جو خدا کے ساتھ اطاعت و فرماں برداری کا عہد استوار کر رہے ہیں وہ اب مل جل کر ایک جمعیت بنیں گے تو ان کی ہیئت ِ اجتماعیہ کو ’’قوم‘‘ سے تعبیر نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ اس کے لیے قرآن مجید کی اصل اصطلاح ’’اُمت‘‘ ہے.
ماہرین لغت نے اُمت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ایسے افراد پر مشتمل ایک ہیئت اجتماعیہ جن کے مابین کوئی قدرِ مشترک‘ کوئی امر جامع یا چند ایسے مسلمہ اصول ہوں جو انہیں جوڑے رکھیں. چنانچہ ہماری جمعیت کے لیے اصل لفظ ’’اُمت‘‘ کا ہے. دوسرا لفظ جو مسلمانوں کی ہیئت ِ اجتماعیہ کے لیے بولا جاتا ہے اور خصوصاً ہماری شاعری میں بہت زیادہ مستعمل ہو گیا ہے وہ لفظ ’’ملت‘‘ ہے. لیکن اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں لفظِ ملت نہ تو قوم کے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ ہی اُمت کے‘ بلکہ ملت کا اصل ترجمہ ہے ’’طریقہ‘ کیش‘‘. ملت ِابراہیم ؑکا مفہوم ہو گا’’ابراہیم ؑکا طریقہ‘‘. چنانچہ مسلمانوں کی ہیئت ِ اجتماعیہ کے لیے لفظ ملت کا استعمال درست نہیں‘ بلکہ لفظ اُمت ہی اس مفہوم کی ادائیگی کرتا ہے.
اس مفہوم کے لیے قرآن مجید کا دوسرا لفظ ’’حزب‘‘ ہے جس کا صحیح ترجمہ ’’پارٹی‘‘ ہوگا. قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا : اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ (المجادلۃ:۲۲) کہ یہ اللہ کی پارٹی ہے‘ اللہ کی جماعت ہے. یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کے ساتھ عہدوفاداری استوار کیا ہے اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنے گلے میں پہن لیا ہے. رہا باقی لوگوں کا معاملہ‘ تو جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے ساتھ عہدِ اطاعت استوار کیا ہے تو وہ سب کے سب ’’حزبُ الشیطان‘‘ ہیں. اس طرح قرآن مجید پوری نوعِ انسانی کو دو جماعتوں یا دو پارٹیوں میں تقسیم کرتا ہے ایک حزب اللہ یعنی اللہ کی پارٹی اور دوسری حزب الشیطان یعنی شیطان کی پارٹی.
مقدم الذکر کے بارے میں فرمایا گیا: اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٪۲۲﴾ (المجادلۃ) ’’یہ ہیں وہ لوگ جو اللہ کی جماعت ہیں. اچھی طرح سمجھ لو کہ یقینا (انجامِ کار کے طور پر) اللہ کی جماعت کے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں.‘‘ سورۂ آل عمران میں بھی ہماری ہیئت اجتماعیہ کے لیے یہی لفظ ’’اُمت‘‘ استعمال ہوا ہے. چنانچہ فرمایا گیا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ (آیت ۱۱۰) ’’تم بہترین اُمت ہو.‘‘ اس ساری گفتگو کے نتیجے میں لفظ اُمت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے جو لوگ دعوتِ عبادتِ ربّ کو قبول کریں گے چاہے وہ کوئی ہوں ‘مغرب سے ہوں یا مشرق سے‘ شمال سے ہوںیا جنوب سے‘ کوئی زبان بولتے ہوں‘ کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں‘ کسی شکل و صورت و رنگ کے حامل ہوں‘ وہ سب بلاامتیاز ایک مجموعۂ افراد بن گئے اور وہ ازروئے قرآن ’’اُمت ِ مسلمہ‘‘ کے رکن قرار پا گئے.