اس آیۂ مبارکہ میں ’’اُمت‘‘ کی صفت کے طور پر لفظ ’’وسط‘‘ استعمال ہوا ہے‘ جس کا لغوی مفہوم ’’درمیانی‘‘ ہے. چنانچہ ’’اُمَّۃً وَّسَطًا‘‘ کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ایک درمیانی اُمت.‘‘ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’بہترین اُمت‘‘ کیا ہے‘ جسے ترجمہ کی بجائے ترجمانی کہنا زیادہ بہتر ہو گا. کیونکہ جو چیز درمیانی ہو‘ وہی بہترین ہوتی ہے.

جو چیز دو انتہاؤں (extremes) کے درمیان ہو‘ معتدل ہو‘ جس کے اندر ہر اعتبار سے توازن پایا جاتا ہو‘ وہی شے بہترین گردانی جائے گی. لہذا اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اس آیۂ مبارکہ کا ترجمہ بالعموم یہی کیا جاتا ہے کہ ’’اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین اُمت بنایا‘‘. اس مفہوم کی تائید سورۂ آل عمران کی اس آیتِ مبارکہ سے ہوتی ہے : کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آیت ۱۱۰’’ تم بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کی راہنمائی کے لیے برپا کیا گیا ہے.‘‘ تم بہترین مجموعۂ افراد ہو‘ تم پوری نوعِ انسانی کا ’’مکھن‘‘ ہو‘ تم بنی نوعِ انسانی کے لیے بمنزلۂ نمک ہو‘ تم سے نمکینی حاصل کی جائے گی. اللہ کی ہدایت کی امانت تمہارے پاس ہو گی اور نوعِ انسانی اس ہدایت سے استفادہ کرے گی. پس یہ مفہوم ہوا ’’اُمت ِ وسط‘‘ کا جس کی تائید ہمیں سورۂ آل عمران کی ’’خیر اُمت‘‘ والی آیت سے مل گئی.

’’اُمت ِوسط‘‘ کا ایک دوسرا مفہوم بھی لیا گیا ہے. وہ یہ کہ لفظِ وسط ’’واسطہ‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے. اس اعتبار سے ’’اُمت ِ وسط‘‘ کا مفہوم خدا اور انسانوں کے مابین واسطوں میں سے ایک واسطہ کا ہے. اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے مابین وسائط کا ایک سلسلہ ہے جس کی پہلی کڑی حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں کہ جن کے واسطہ سے ہدایتِ خداوندی محمدٌ رسول اللہ تک پہنچی. دوسرا واسطہ خود حضرت محمد کی ذاتِ گرامی ہے کہ پوری نوعِ انسانی ہدایت کے لیے آنحضور کی محتاج ہے. نوعِ انسانی اگر ہدایت ربانی حاصل کرنا چاہتی ہے ‘ وہ خدا سے یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ میں کیا کروں‘ کیا نہ کروں‘ حق کیا ہے‘ باطل کیا ہے‘ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ تو اس کے لیے وہ مجبور ہے کہ یہ ہدایت محمد رسول اللہ سے اخذ کرے. نبی اکرم کے بعد اس سلسلۂ وسائط کی تیسری کڑی ہے اُمت ِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام‘ اس لیے کہ نبی اکرم کی طرف سے ہدایت کی امانت اُمت کو منتقل ہو گئی.

حضورؐ نے سرزمینِ عرب کی حد تک اپنے فریضۂ تبلیغ و رسالت کی بنفس نفیس تکمیل فرما کر یہ ذمہ داری اُمت کو منتقل فرما دی. قرآن حکیم میں وحی کے ضمن میں رسول اللہ کی ذمہ داری بایں الفاظ بیان کی گئی ہے: وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط(الانعام:۱۹’’اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے تم کو اور جس جس کو یہ (قرآن) پہنچے ان سب کو خبردار کروں.‘‘ جس کو یہ قرآن پہنچ جائے اس پر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمامِ حجت ہو جائے گا. خاتم النبیین محمد رسول اللہ کے بعد وحی کی روشنی کو عام کرنا اور دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچانا اُمت کی ذمہ داری ہے. چنانچہ بنی نوعِ انسان کے لیے ہدایت و رہنمائی کا جو سلسلہ قائم ہوا ہے اس میں پہلا واسطہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا‘ دوسرا نبی کریم  کی ذاتِ گرامی کا اور تیسرا واسطہ اُمت ِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا ہے .اور یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ اُمت اسی لیے ’’امت ِ وسط‘‘ کہلاتی ہے کہ یہ اس سلسلۂ ہدایت کی ایک کڑی اور ایک واسطہ ہے.

اس بات کی تائید اسی آیۂ مبارکہ کے اگلے ٹکڑے سے ہو رہی ہے‘ جہاں فرمایا گیا: لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ ’’تاکہ تم گواہ ہو جاؤ لوگوں پر اور رسول گواہ ہو جائیں تم پر‘‘. تو گویا یہاں وسائط کا وہ سلسلہ واضح کیا جا رہا ہے کہ اے اُمت ِ محمدؐ ! محمد نے تم تک تمہاری کتابِ ہدایت اور دین حق کی تبلیغ‘ تعلیم اور تبیین کا حق ادا کر دیا . آپؐ اپنے قول اور اپنے عمل سے حق کی شہادت دے چکے اور اللہ کی اطاعت پر مبنی نظامِ زندگی بالفعل قائم کر کے دکھا چکے. یہ گویا رسول کی گواہی ہوگئی تم پر اور اب یہی گواہی بنی نوعِ انسان پر قائم کرنا تمہاری ذمہ داری ہے. یعنی اب تمہیں اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتابِ ہدایت اور دینِ حق کو عملاً نافذ کرکے دنیا کے سامنے حق کی شہادت دینی ہے.