آیت کے اس ٹکڑے پر ایک اور پہلو سے غور کیجیے. ’’لِتَکُوْنُوْا‘‘ کے آغاز میں جو حرفِ ’’لام‘‘ آیا ہے یہ ’’لامِ غایت‘‘ بھی ہے جو ایک مقصد کو معین کر رہا ہے ’’تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ!‘‘ یعنی تمہاری جمعیت جسے ’’اُمت ِ وسط‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ ایک بے مقصد جمعیت نہیں ہے‘ بلکہ اس کا ایک معین مقصد اور ایک مقرر نصب العین ہے. تمہاری ہیئتِ اجتماعیہ دنیا کی تمام ہیئاتِ اجتماعیہ سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ تمام اقوامِ عالم اپنے لیے جیتی ہیں‘ لیکن تمہیں نوعِ انسانی کے لیے زندہ رہنا ہے. ان کے پیشِ نظر اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ اپنی عزت‘ اپنے وقار‘ اپنے مسائل‘ اپنے مفادات اور اپنی آزادی کے تحفظ کی فکر کریں اور اپنی روایات اور اپنی مصلحتوں کا لحاظ رکھیں. لیکن تمہارا معاملہ بالکل مختلف ہے. اس ضمن میں سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ (آیت ۱۱۰)
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے بنی نوعِ انسان (کی فلاح و بہبود) کے لیے برپا کیا گیا ہے. تم معروف کا حکم دیتے ہو‘ منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر (پختہ) ایمان رکھتے ہو.‘‘
یعنی لوگوں کو معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا اس ’’خیر اُمت‘‘ کی ذمہ داری ہے. چنانچہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد خود اپنے ذاتی مفادات کا حصول اور اپنے مسائل کا حل نہیں ہے‘ بلکہ ہماری ہیئتِ اجتماعیہ کی اصل غرضِ تأسیس نوعِ انسانی کی ہدایت و رہنمائی ہے. آیۂ زیرمطالعہ میں ’’لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ‘‘ کے الفاظ اُمت کے اسی آفاقی اور اجتماعی نصب العین کو بیان کر رہے ہیں.