کسی بھی مجموعۂ افراد اور ہیئتِ اجتماعیہ کے لیے ایک اجتماعی نصب العین ناگزیر ہوتا ہے‘ جس کے بغیر اس ہیئتِ اجتماعیہ کی حیثیت بے لنگر کے اُس جہاز کی سی ہوتی ہے جس کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی اور وہ لہروں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے.ہمارے ملک میں جو قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے گئے ہیںتو اس کا اصل سبب میرے نزدیک یہی ہے کہ ہمارا کوئی آفاقی اور اجتماعی نصب العین ہے ہی نہیں. ہم ایک ایسی قوم اور ایک ایسا مجموعۂ افراد بن کر رہ گئے ہیں جن کے سامنے کوئی اجتماعی نصب العین سرے سے موجود ہی نہیں. یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے ذاتی معاملات و مسائل میں غلطاں و پیچاں‘ اپنے ذاتی مفادات و اغراض کے حصول میں کوشاں اور اپنے معیارِ زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے میں لگا ہوا ہے. اس کے سامنے اس کی مساعی‘ اس کی جدوجہد اور اس کی کوشش و محنت کا کوئی دوسرا ہدف اور اس کی صلاحیتوں اور اوقات کا کوئی دوسرا مصرف سرے سے موجود ہی نہیں. لہذا اس کی ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ کا مرکز و محور یہی بن کر رہ گیا ہے کہ وہ اپنا گھر سجائے‘ اپنی بلڈنگیں اونچی کرے‘ اپنے کاروبار کو مزید ترقی دے‘ اپنے آرام و آسائش کے لیے زیادہ سے زیادہ سامان فراہم کرے‘ اپنی کاروں کے ماڈل ہرسال بدلتا چلا جائے اور زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے تعیش کی نت نئی راہیں تلاش کرے. اجتماعی نصب العین کے فقدان کے سبب سے ہماری قومی زندگی ایک بہت بڑے خلا کا شکار ہو کر رہ گئی ہے‘ جس کے ہولناک نتائج ہم بھگت رہے ہیں. ہمارے ہاں کسی کے اندر قربانی اور ایثار کا کوئی جذبہ نہیں‘ اپنے ہم جنسوں کی ہمدردی کا کوئی مادہ نہیں.
جہاں تک دنیا کی دوسری اقوام کا تعلق ہے تو ان کی قومیت کی تأسیس چاہے غلط بنیادوں پر ہوئی ہو ‘لیکن یہ ایک امر واقع ہے کہ وہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں. وہ چاہے نسل کی بنیاد پر قوم بنے ہوں‘ چاہے وطن اور علاقے کی بنیاد پر‘ لیکن ان میں جب ایک ’’قوم‘‘ ہونے کا شعور پختہ ہو جاتا ہے تو ان کے نزدیک اپنے ذاتی مقاصد اور مفادات ثانوی درجے کے حامل ہو جاتے ہیں اور ان کی نگاہوں میں اصل اہمیت ایک قومی نصب العین کو حاصل ہو جاتی ہے. ان میں یہ احساس اجاگر ہو جاتا ہے کہ ان کو اپنی قومی عظمت کے لیے کام کرنا ہے‘ اپنی قوم کے مفاد کے لیے کوشش کرنی ہے‘ اپنے وطن کی عظمت اور اس کا نام اونچا کرنے کے لیے کام کرنا ہے. لیکن ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ جو اپنے نصب العین ہی کو بھلا بیٹھی ہے. یاد رہے کہ قومیت کا نعرہ ہم کو کبھی اپیل نہیں کر سکتا‘ اس لیے کہ یہ تصور ہماری روایات اور تعلیمات سے بالکل متصادم ہے. زبان و نسل‘ رنگ و خون اور علاقہ و وطن کی بنیاد پر ہم کبھی بھی ایک قوم نہیں بن سکتے. ہم خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور کیسی ہی پستی میں گر جائیں‘ لیکن یہ چیزیں ہمیں کبھی بھی اپیل نہیں کر سکیں گی‘ اس لیے کہ آخر ہماری ڈیڑھ ہزار برس کی تاریخ ہے‘ ہماری تابندہ روایات ہیں‘ اور ماؤں کے دودھ کے ساتھ جو تعلیم ہمارے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے اس میں یہ بات بھی بہرحال موجود ہے کہ یہ چیزیں ہمیں کبھی بھی اجتماعی حیثیت سے متأثر نہیں کر سکیں گی. ایک طرف یہ خوبی ہے‘ لیکن دوسری طرف ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارا اصل نصب العین ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکا ہے اور اس کا ہمیں شعور حاصل نہیں رہا. لہذا اب ہم اس خلا کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں اور بے لنگر کے جہاز کی طرح موجوں کے رحم و کرم پر ہچکولے لے رہے ہیں.
اس مسئلے پر میں ایک بات مزید عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی قوم کے سامنے اجتماعی نصب العین کے ہونے یا نہ ہونے سے کتنا عظیم الشان فرق واقع ہوتا ہے. آج دنیا کے سامنے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور اکثر یورپی ممالک کی نوجوان نسل اس خلا سے دوچار ہے کہ اب ان کے سامنے کوئی اعلیٰ و ارفع نصب العین اور مقصد نہیں ہے‘ اس لیے کہ بحیثیت قوم ان کے سامنے جو سب سے اونچا نصب العین ان کے بزرگوں اور مفکروں نے پیش کیا وہ یہ تھا کہ ایک فلاحی ریاست (Welfare State) قائم ہونی چاہیے اور تمام لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہونا چاہیے. اب کم از کم امریکہ کے اندر تو وہ معیارِ زندگی اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اس سے زائد کی توقع عبث ہے. وہاں حالت یہ ہے کہ اگر ایک گھر میں افراد چھ ہیں تو کاریں سات ہیں. ان حالات میں نئی نسل کے ایک امریکی نوجوان کے سامنے اب کیا مقصد اور کون سا نصب العین رہا؟ اب وہ کس کام کے لیے محنت کرے اور کس آئیڈیل کو اپنی مساعی کا ہدف بنائے؟ لہذا وہاں خلا کا ایک احساس ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے. آج ہمیں سڑکوں پر جو ہپی (hippy) گھومتے نظر آ رہے ہیں اور مغرب میں جو سماج دشمن رجحانات (anti social trends) بڑھتے جا رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نوجوان نسل اس دَور کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہے جس میں انسان تہذیب و تمدن سے بالکل عاری تھا اور وہ پہاڑوں کی غاروں کے اندر رہا کرتا تھا. یہ وحشیوں کے طریقے پر بڑھے ہوئے بال اور ناخن‘ یہ میلا اور گندا رہنے کا مذموم جذبہ‘ یہ دراصل ردِّعمل ہے ایک اعلیٰ و ارفع نصب العین کے فقدان کا. یہ نہ سمجھئے کہ چند سر پھرے نوجوانوں نے ہپی ازم کو اختیار کر لیا ہے اور وہ جہاں گردی کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں‘ بلکہ جن لوگوں کو امریکہ اور یورپ کی سیاحت کا اتفاق ہوا ہو وہ جانتے ہیں کہ چند بڑے بڑے افسروں (executives)‘ صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو چھوڑ کر وہاں کے بازاروں میں نوجوانوں کے غول کے غول اسی ہپی فیشن میں نظر آتے ہیں اور یہی نقشہ ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نظر آتا ہے.
اس کے برعکس چین کے نوجوانوں میں یہ نقشہ بالکل نظر نہیں آئے گا. وہاں پر یہ مسئلہ اس لیے پیدا نہیں ہوا کہ ان کے سامنے بہرحال ایک اجتماعی نصب العین موجود ہے. ان کے ذہنوں میں ایک بات رچائی اور بسائی گئی ہے اور کم از کم ہر چینی نوجوان اس جذبے سے سرشار ہے کہ اسے اپنے گرد و پیش اشتراکی انقلاب (Communist Revolution) برپا کرنا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایثار‘ قربانی‘ جدوجہد‘ محنت و کوشش اورمقصد کی لگن ان کے ہاں قومی سطح پر موجود ہے. پس معلوم ہوا کہ کسی قوم کے پیش نظرایک اجتماعی نصب العین ہونے یا نہ ہونے سے زمین و آسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے.
یہ بات تحریکِ پاکستان کے حوالے سے اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ کی تحریک کو تقویت اسی وقت حاصل ہوئی جب اس نے پاکستان کے مطالبے کو ایک ’’نصب العین‘‘ کی حیثیت سے اختیار کیا. لیکن پاکستان کے قیام کے بعد چونکہ قوم کو کوئی واضح نصب العین نہیں دیا گیا ‘لہٰذا یہاں قومی سطح پر نصب العین کا ایک خلا واقع ہو گیا. چنانچہ یہاں ہر فرد کی مساعی کا ہدف‘ اس کی جہد و کوشش کی غرض و غایت‘ اس کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز و محور اور اس کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ رہا کہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ آسائش و آرام اور حصولِ معاش کے ذرائع تلاش کرے‘ زیادہ سے زیادہ الاٹمنٹ کرائے اور اپنے معیارِ زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے میں لگ جائے. لہذا یہی چیزیں ہر فرد کا ذاتی نصب العین بن کر رہ گئیں اور اجتماعی نصب العین اس نفسا نفسی میں گم ہو کر رہ گیا.
چنانچہ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے کوئی آفاقی اور اجتماعی نصب العین ہو. یہ ضرورت صرف مذہبی اور دینی لحاظ سے اور صرف آخرت کی جواب دہی کے اعتبار سے ہی نہیں ہے‘ بلکہ قومی زندگی کے اعتبار سے‘ ہمارے ملی تشخص کے اعتبار سے اور نوجوان نسل کے سامنے زندگی کا ایک ارفع و اعلیٰ نصب العین لانے کے اعتبار سے ہمارے لیے لازم و ناگزیر ہے کہ اس ملک کے رہنے والے مسلمانوں میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ بحیثیت اُمت ِ مسلمہ ہمارا نصب العین کیا ہے اور ہماری انفرادی و اجتماعی مساعی اور جدوجہد کو کس مرکز و محور کے گرد مرتکز ہونا چاہیے. اس اعتبار سے یہ آیۂ مبارکہ ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ یہ اُمت ِ مسلمہ کی غرضِ تأسیس اور اس کا اجتماعی نصب العین بیان کر رہی ہے.