اس آیت میں ’’شَھِیْدٌ‘‘ کا جو لفظ آیا ہے اس کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے. اس کا لفظی ترجمہ ’’گواہ‘‘ ہے. فرمایا گیا: ’’تاکہ تم ہو جاؤ گواہ نوعِ انسانی پر اور رسول ہو جائیں گواہ تم پر.‘‘ اوّلین گواہی انسان کے اپنے قول اور زبان سے ہوتی ہے. ایک شخص زبان سے اقرار کرتا ہے کہ : اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘.تو یہ قولی گواہی ہے جس سے وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے. اس کے بعد پھر عملی گواہی کا درجہ آتا ہے‘ اور دنیا میں اصلاً وہی گواہی معتبر قرار پاتی ہے جس کی تائید انسان کے عمل سے ہو رہی ہو. اگر آپ قولاً ایک بات کا اعلان کررہے ہیں‘ مگر عملاً اس کی تکذیب کر رہے ہوں تو دنیا اس بات کو معتبر نہیں مانے گی. معتبربات وہی ہو گی جو عمل سے ثابت ہو جائے. لہذا قولی شہادت کے ساتھ اس کی عملی گواہی بھی زندگی کے پورے رویے سے لازمی طور پر ملنی چاہیے.

کلمۂ شہادت ادا کرنے سے ہم نے اللہ کے معبود ہونے‘ مطاعِ مطلق ہونے‘ حاکم و مالک ہونے اور خالق و ربّ ہونے کا اقرار کیا ہے اور محمد کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول مانا ہے‘ انہیں اس کا فرستادہ اور نمائندہ تسلیم کیا ہے. اس تصدیق و تسلیم اور عہد و میثاق کی بدولت ہمیں ’’یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہوا. لہذا ہم پر لازم ہو گیا کہ ہماری عملی زندگی بھی اس کی شہادت دے اور ہم میں سے ہر فرد عملی طور پر اللہ کا بندہ‘ غلام اور مطیعِ فرمان بن جائے. اس کی زندگی کا ہر عمل اور فعل اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ یہ شخص خودمختار نہیں ہے‘ یہ من مانی کرنے کے لیے آزاد نہیں ہے‘ یہ زمانے کے چلن کے ساتھ چلنے کا مجاز نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک پابند شخصیت ہے جو چند بندھنوں میں بندھی ہوئی ہے. اس کے سامنے ایک معین منزلِ مقصود اور نصب العین ہے اور ا س کا ہر قدم اپنی منزل ہی کی سمت میں اٹھتا ہے. اس کی زندگی کا ایک رُخ متعین ہو چکا ہے اور زندگی کے ہر دوراہے کے لیے اسے ہدایت دے دی گئی ہے کہ اسے کس راہ پر چلنا ہے اور کس پر نہیں چلنا ہے. غرضیکہ اس کے ہر کام اور ہر حرکت کے لیے طے کر دیا گیا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے. انسان کی عملی زندگی کی اس گواہی سے درحقیقت اس قولی گواہی ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ‘‘ کا انفرادی سطح پر حق ادا ہوگا.

اب اس سے آگے بڑھیے! ہماری حیثیت چونکہ محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک اُمت کی ہے‘ لہذا ہمیں یہ عملی گواہی صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی دینی ہو گی. اس اعتبار سے جب تک ہماری پوری کی پوری اجتماعی زندگی یعنی ہمارا ملکی نظام‘ ہمارا آئین و دستور‘ ہمارے تمام قوانین‘ ہماری معیشت‘ معاشرت‘ تہذیب و تمدن اور ادب و ثقافت‘ غرضیکہ ہماری اجتماعی زندگی کا ہر شعبہ اللہ کے نازل کردہ دین و شریعت کے سانچے میں ڈھل نہیں جائے گا اُس وقت تک عملی گواہی کا حق ادا نہیں ہو گا.اس عملی گواہی کی تکمیل اُس وقت ہو گی جب اللہ کی اطاعت پر مبنی نظامِ حیات نوعِ انسانی کو اپنی کامل صورت میں قائم و نافذ نظر آئے‘ ورنہ اُمت کتمانِ حق کی مجرم شمار کی جائے گی اور جو شخص حق کی یہ گواہی دینے کے لیے نقدِ جان نچھاور کر دے اسے مالکِ ارض و سما کی بارگاہ سے ’’شہید‘‘ کا خطاب ملتا ہے اور اس کی گواہی پر مہر تصدیق ثبت کر دی جاتی ہے کہ یہ ہے وہ سچا گواہ جس نے جان کی بازی لگا کر اس بات کی گواہی دے دی کہ اس کائنات کا ایک ہی مالک اور ایک ہی معبود ہے. اس نے جان پر کھیل کر دراصل یہ اعلان کیا ہے : اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ (یوسف:۴۰کہ اللہ کے سوا اور کسی کو حکم کا اختیار نہیں اور اس نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو! یہی دین قیم ہے‘ یہی قائم و مستحکم دین ہے!!

لفظ ’’شہادت‘‘ کی مندرجہ بالا بحث سے ہمارے دین میں اس کی اہمیت اور اس کا مقام واضح ہوتا ہے. شہادت ہی سے ہمارے اسلام کا آغاز ہوا. ہم کلمۂ شہادت کا اقرار کر کے اُمت ِ مسلمہ میں شامل ہوئے اور مسلمان قرار پائے. اور اب جو ہماری بلند ترین منزل ہو سکتی ہے وہ ’’مقامِ شہادت‘‘ ہے‘ جو اللہ کی راہ میں نقدِ جان کا نذرانہ دے کر حاصل ہوتا ہے. بقول علامہ اقبال : ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشورکشائی!